سینٹ: ایمل ولی کے دھاندلی، کرپشن الزامات، پی ٹی آئی کے جوابی وار، ترامیم حکومت کے گلے پڑیں گی: شبلی فراز

اسلام آباد (خبر نگار) سینٹ میں تقریر کرتے ہوئے اے این پی کے پارلیمانی لیڈر ایمل ولی خان نے  پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت پر کرپشن اور دھاندلی سے حکومت بنانے کے الزامات لگائے جس پر پی ٹی آئی کی سینیٹرز نے احتجاج کیا اور جوابی وار کئے۔ اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے کہا ہے کہ آج اے این پی غیر مقبول  اور زوال کا شکار ہے تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔ الیکشن اور پارلیمنٹ میں عوامی رائے بے شرمی اور ظلم سے تبدیل کی گئی۔ یہ اسمبلی ترامیم نہیں کر سکتی۔ حکومت جو کر رہی اس کے گلے پڑے گا۔ تفصیل کے مطابق  ایمل ولی نے پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت پر کرپشن اور نااہلی کے الزامات لگاتے ہوئے کہا ہے کہ خوارج اور ریاست کی حمایت سے صوبے کی حکومت ان کو دی گئی ہے۔  منگل کو ایوان بالا میں نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے سینیٹر ایمل ولی خان نے کہاکہ پی ٹی آئی میں الیکٹیبلز کو زبردستی شامل کیاگیا ہے اور ان کے اپنے صدر چوہدری پرویز الہی کا بیان موجود ہے کہ ہمارے ساتھیوں کو پی ٹی آئی میں شامل کیا گیا۔ انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کی کارکردگی دیکھیں۔ پختونخوا کا پہلے 97ارب قرضہ تھا اور آج 1500ارب روپے ہوچکا ہے۔ اور وہ چار سال پورے پاکستان کو یاد ہیں۔ اس وقت آرمی چیف جنرل باجوہ کی توسیع حلال تھی مگر اب کہتے ہیں کہ حرام ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی پوری حکومت اور پارلیمنٹ ایک کرنل چلاتے تھے اور ایوان صدر اس وقت آرڈیننس کا کارخانہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اپنے دور کا ایک میگا پراجیکٹ دکھائے۔ القادر ٹرسٹ ان کا کامیاب منصوبہ تھا۔ توشہ خانہ ایک بہترین پراجیکٹ تھا اور میرے خیال میں ملک ریاض کے ساتھ 190ملین پائونڈ والا ان کا بہترین پراجیکٹ تھا۔ انہوں نے کہاکہ 12سال سے پختونخوا میں ان کی حکومت کی ہے اپنی کارکردگی دکھا دیں۔ بی آر ٹی میں 32ارب روپے کی کرپشن کی گئی۔ اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے کہا ہے کہ آج جو بھی مشہور ہونا چاہتا ہے وہ پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کی بات کرتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کے عوام بانی پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ خیبر پی کے سے تعلق رکھنے والے ایمل ولی خان کے بیانات کی مذمت کرتا ہوں۔ ہم نے کسی کو گالی نہیں دینی ہے مگر صرف آئینہ دکھانا ہے۔ انہوں نے کہاکہ جس طرح سے 26ویں ترمیم لائی گئی اور جس طرح سے پی ٹی آئی کے لوگوں کو اٹھایا گیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ قومی اسمبلی بھی نامکمل ہے، مخصوص نشستوں کا مسئلہ ہے اور سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں کا فیصلہ نہیں کر رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر جانبدار رہے مگر ان کا ٹریک ریکارڈ دیکھ لیں کہ انہوں نے کس طرح کا الیکشن کرایا اور پی ٹی آئی کو انتخابی نشان سے محروم کیا گیا مگر عوام نے پھر بھی بانی پی ٹی آئی کو ووٹ دیا۔ عوام کی رائے کو بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی سے تبدیل کیا گیا اور اسی وجہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ آج کی حکومت درست نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ پوری دنیا کہتی ہے کہ پاکستان کے انتخابات درست نہیں تھے اور اسی وجہ سے یہ اسمبلی ایسی ترامیم نہیں کرسکتی ہے کہ آئین پاکستان میں تبدیلی کی جائے۔ میری درخواست ہے کہ اس حوالے سے ایک قرارداد منظور کی جائے تاکہ یہ ایوان مکمل ہوسکے۔ اگر دھونس اور جبر یا لالچ سے کسی کی وفاداری کو خریدتے ہیں تو یہ اچھا نہیں ہے۔ ہمارے ہی ایک کولیگ نے ہمارے اقلیتی ممبر کو فون کیا کہ اتنے پیسے مل رہے ہیں آ پ لے لو، جس پر اقلیتی ممبر نے یہ جواب دے دیا کہ ہمارا مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا ہے لیکن اس کی وجوہات کیا تھی۔ ہمیں اپنی مرضی کے جج لانے کی روایت کو ختم کرنا ہوگا اور عدلیہ کو ایک آزاد ادارہ بنانا ہے۔ اگر اس طرح کی صورتحال ہو تو اس ملک میں کون سرمایہ کاری کرے گا۔ خیبر پختونخوا کے صورتحال پر ہم صوبے کے عوام کے سامنے جواب دہ ہیں اور یہ جواب ہم انتخابات میں دیں گے۔ انہوں نے کہاکہ جب سیاسی طاقتوں کو دبایا جاتا ہے تو دوسری طاقتیں نکل آتی ہیں۔ یہ جو بھی ماحول ہے اس کو بہتر بنانا ہوگا۔ ابھی 26ویں ترمیم ہضم نہیں ہوئی ہے 27ویں ترمیم کی باتیں شروع ہوگئی ہیں۔ سوچ سمجھ کر قانون سازی کریں۔ انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی لازم و ملزوم ہیں ہم ان کی قانونی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہم بانی کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے ہیں۔ ہمارے سامنے مشکلات ہیں۔ بانی پی ٹی آئی بڑی آسانی سے جیل سے باہر آسکتے ہیں جس طرح میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری باہر گئے تھے مگر وہ ایک محب وطن لیڈر اور پاکستانی ہے۔ ہم سیاسی اور قانونی جنگ لڑتے رہیں گے۔  ہم کوئی این آر آو نہیں مانگ رہے ہیں۔ ایوان بالا میں اے این پی کے سینیٹر ایمل ولی خان نے خیبر پختونخوا میں عام انتخابات 2024ء کی فنگر پرنٹ تصدیق کا مطالبہ کردیا ۔ 50فیصد سے کم دھاندلی ہوئی ہو تو میں چپ رہوں گا۔ اگر 50فیصد سے زیاد ہ دھاندلی ثابت ہوئی تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ وفاقی وزیر نیشنل فوڈ اتھارٹی رانا تنویر حسین نے قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے سیڈ ایکٹ ترمیمی بل پیش کیا  جسے کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔ اس موقع پر اپوزیشن لیڈر نے بل کو متعلقہ کمیٹی کو بھجوانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ یہ طریقہ کار درست نہیں ہے۔

ای پیپر دی نیشن