حماس کے اہم رہنما سامی ابو زہری کا کہنا ہے کہ تنظیم اس وقت جنگ کے خاتمے کے لیے وساطت کاروں کی جانب سے نئی تجاویز پر غور کر رہی ہے۔
منگل کے روز ایک ریکارڈ شدہ بیان میں انھوں نے باور کرایا کہ ان تجاویز میں غزہ کی پٹی سے اسرائیل کا مکمل انخلا بھی شامل ہونا چاہیے۔
فائر بندی سے متعلق مذاکرات کے حوالے سے ابو زہری کا کہنا تھا کہ حماس نے فائر بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے نئی تجاویز پر بات چیت کے لیے وساطت کاروں کی درخواست کا مثبت جواب دیا ہے۔ اس سلسلے میں بعض ملاقاتیں ہوئی ہیں اور ابھی مزید ملاقاتیں ہوں گی۔
حماس رہنما نے واضح کیا کہ تنظیم کا وفد یہ باور کرا چکا ہے کہ حماس ایسے کسی بھی معاہدے کے لیے تیار ہے جو غزہ کی پٹی کے حوالے سے امور کو حل کرے۔ ان میں لوگوں کی مشکلات کا خاتمہ، حتمی فائر بندی، اسرائیل کا مکمل انخلا، محاصرے کا خاتمہ، امداد کا پہنچنا، تعمیر نو اور قیدیوں سے متعلق نیا سمجھوتا شامل ہے۔البتہ حماس رہنما نے ان شرائط میں کسی تبدیلی کی جانب اشارہ نہیں کیا جن پر تنظیم قائم ہے۔واضح رہے کہ غزہ کے حوالے سے مذاکرات دو ماہ سے موقوف تھے۔ امریکی، مصری اور قطری کوششوں کی وساطت سے گذشتہ اتوار ان کا دوبارہ سے آغازہ ہوا۔ایک با خبر ذمے دار نے غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کو بتایا تھا کہ امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر، اسرائیلی موساد کے سربراہ اور قطر کے وزیر اعظم نے اتوار کے روز دوحہ میں ملاقات کی۔ ملاقات کا مقصد مختصر مدت کے نئے معاہدے تک پہنچنا ہے تا کہ غزہ کی پٹی میں فائر بندی ہو سکے اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے مقابل حماس کے پاس موجود بعض یرغمالیوں کی رہائی عمل میں آ سکے۔اسرائیلی حکومت غزہ اور لبنان میں فائر بندی کے لیے اپنے اتحادی اور مرکزی فوجی سپورٹر امریکا کی جانب سے وساطت کی کئی کوششیں مسترد کر چکی ہے۔ایک طرف حماس اور اسرائیل ایک دوسرے پر جنگ بندی میں رکاوٹ ڈالنے کے الزامات عائد کر رہے ہیں تو دوسری طرف اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کو سمجھوتے کے لیے اندرونی دباؤ کا سامنا ہے