محمد آصف بھلی
سیالکوٹ کی تحصیل سمبڑیال کے مشہور گاﺅں جیٹھی کے میں کچھ ہی عرصہ پہلے قرآن پاک کی بے حرمتی کے جرم میں ایک عیسائی نوجوان فانش مسیح کے خلاف مقدمہ درج ہُوا تھا۔ اس نوجوان نے 15 ستمبر کو سیالکوٹ جیل میں خودکشی کر لی۔ قرآن حکیم کی بے حرمتی کا واقعہ ہُوا یا نہیں اس کا صحیح علم تو خدائے بزرگ و برتر ہی کو ہو گا تاہم میں کچھ ٹھوس شہادتوں کی بنیاد پر یہ رائے رکھتا ہوں کہ فانش مسیح پر قرآن حکیم کی بے حرمتی کا الزام درست نہیں تھا۔ میں فانش مسیح پر قرآن حکیم کی بے حرمتی کا الزام لگانے والے اپنے مسلمان بھائیوں کی نیتوں پر بھی شک کا اظہار نہیں کرنا چاہتا ممکن ہے انہیں غلط معلومات فراہم کی گئی ہوں۔ ہاں اپنے ہی گاﺅں کی ایک مسلمان لڑکی سے نازیبا حرکات کی حد تک فانش مسیح کو قصوروار بتایا جاتا ہے۔ جس طرح فانش مسیح پر قرآن کریم کی بے حرمتی کے الزام کو میں اپنی معلومات کی حد تک درست نہیں سمجھتا۔ اسی طرح میں جیل میں فانش مسیح کو تشدد سے قتل کئے جانے کے الزام کو بھی صحیح خیال نہیں کرتا۔ ہمیں کسی بھی واقعہ کے بارے میں حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے مکمل تحقیق ضرور کر لینی چاہئے۔ زندگی چاہے مسلمان کی ہو یا عیسائی کی اُس کا یکساں احترام ضروری ہے۔ اگر فانش مسیح کو جیل میں قتل کیا گیا ہو تو اس کے خلاف ہمیں سب کو مل کر آواز بلند کرنی چاہئے لیکن حقیقت اگر اس کے برعکس ہو کہ فانش مسیح نے جیل میں خودکشی کی ہے تو اسے قتل قرار دینا بالکل اُسی طرح غلط ہو گا کہ جس طرح فانش مسیح پر قرآن حکیم کی بے حرمتی کا الزام میرے نزدیک درست نہیں تھا۔ جب میں انسانی زندگی کی حرمت کی بات کرتا ہوں کہ اُس میں عیسائی یا مسلم کی تفریق غلط ہے تو پھر میں یہاں یہ بھی عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے عیسائی بھائیوں کو بھی اپنے سوچنے کے انداز میں توازن پیدا کرنا چاہئے۔ اگر فانش مسیح کی خودکشی کے واقعہ کو ایک عیسائی یا مسلمان کی نظر سے نہ دیکھا جائے تو حقیقت حال یہ ہے کہ فانش مسیح کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اُس کی موت تشدد سے نہیں بلکہ خودکشی سے واقع ہوئی پھر ایک جوڈیشل مجسٹریٹ کی آزادانہ انکوائری میں بھی یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ فانش مسیح نے خودکشی کی ہے۔ اب اسی معاملہ کی سیشن جج کی سطح پر بھی انکوائری شروع ہونے والی ہے۔ یہ انکوائری مکمل ہونے میں یقیناً کچھ مدت درکار ہو گی۔ اس کا ہم بھی انتظار کریں گے۔ لیکن میں خاص طور پر اپنے عیسائی بھائیوں کی خدمت میں یہ گزارش کروں گا کہ وہ جیل میں ایک عیسائی نوجوان کی خودکشی کے واقعہ کو اقلیت کی نظر سے نہ دیکھیں۔ اقلیت کی نظر سے دیکھنے سے میری مراد یہ ہے کہ بہت سارے وہ عیسائی دوست سیشن جج کی انکوائری میں شہادت دینے کےلئے اپنے نام لکھوا رہے ہیں جو جیل میں موجود ہی نہیں تھے۔ یعنی وہ جیل میں پیش آنے والے خودکشی یا تشدد کے
کسی واقعہ کے عینی گواہ ہی نہیں پھر وہ کس اَمر کی گواہی دینا چاہتے ہیں۔ گواہی تو اُن افراد کی لی جانی چاہئے جو کسی وقوعہ کے براہ راست گواہ ہوں۔ یا اُن ڈاکٹروں کی شہادت جنہوں نے فانش مسیح کا پوسٹ مارٹم کیا ہے۔اتفاق سے اس وقت سیالکوٹ جیل کے سپرنٹنڈنٹ بھی ایک ایسا افسر ہے جس نے انتہائی ہوش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جیل میں فانش مسیح کے واقعہ کے فوراً بعد سیشن جج سیالکوٹ‘ ڈی پی او‘ اقلیتی نمائندوں اور تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ازخود مطلع کیا اور اُن سب سے موقع دیکھنے کی درخواست کی تاکہ کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہ رہے کہ فانش مسیح نے خودکشی کی ہے یا فانش مسیح کی موت پولیس یا جیل اہلکاروں کے تشدد کا نتیجہ ہے۔ پھر جوڈیشل مجسٹریٹ کی انکوائری میں بھی فانش مسیح کی موت کو خودکشی کا نتیجہ قرار دیا گیا۔ اقلیتی امور کے وفاقی اور صوبائی وزیر بھی جیل کا دورہ کر چکے ہیں اور انہیں صحیح حالات کا بڑی حد تک علم ہو چکا ہے۔ اب کوئی مصلحتاً سچ نہ بولے تو یہ اُس کی مرضی۔ لیکن میں دوبارہ عرض کروں گا کہ کسی عیسائی برادری کے لیڈر یا وزیر کو مذہبی بنیاد سے بلند ہو کر اپنا کردار دیانت داری سے ادا کرنا چاہئے۔ جب تمام صوبائی اور وفاقی سطح کی خفیہ ایجنسیاں‘ جوڈیشل مجسٹریٹ کی انکوائری‘ ڈاکٹروں کی مرتب کردہ پوسٹ مارٹم رپورٹ فانش مسیح کی موت کو خودکشی کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں تو پھر اس معاملے کو اقلیتوں کے مسئلے کا رنگ دینا صریحاً ناانصافی اور ظلم ہو گا۔ حقیقت کو سیاسی مصلحتوں کی بھینٹ نہیں چڑھایا جانا چاہئے۔
سیالکوٹ کی تحصیل سمبڑیال کے مشہور گاﺅں جیٹھی کے میں کچھ ہی عرصہ پہلے قرآن پاک کی بے حرمتی کے جرم میں ایک عیسائی نوجوان فانش مسیح کے خلاف مقدمہ درج ہُوا تھا۔ اس نوجوان نے 15 ستمبر کو سیالکوٹ جیل میں خودکشی کر لی۔ قرآن حکیم کی بے حرمتی کا واقعہ ہُوا یا نہیں اس کا صحیح علم تو خدائے بزرگ و برتر ہی کو ہو گا تاہم میں کچھ ٹھوس شہادتوں کی بنیاد پر یہ رائے رکھتا ہوں کہ فانش مسیح پر قرآن حکیم کی بے حرمتی کا الزام درست نہیں تھا۔ میں فانش مسیح پر قرآن حکیم کی بے حرمتی کا الزام لگانے والے اپنے مسلمان بھائیوں کی نیتوں پر بھی شک کا اظہار نہیں کرنا چاہتا ممکن ہے انہیں غلط معلومات فراہم کی گئی ہوں۔ ہاں اپنے ہی گاﺅں کی ایک مسلمان لڑکی سے نازیبا حرکات کی حد تک فانش مسیح کو قصوروار بتایا جاتا ہے۔ جس طرح فانش مسیح پر قرآن کریم کی بے حرمتی کے الزام کو میں اپنی معلومات کی حد تک درست نہیں سمجھتا۔ اسی طرح میں جیل میں فانش مسیح کو تشدد سے قتل کئے جانے کے الزام کو بھی صحیح خیال نہیں کرتا۔ ہمیں کسی بھی واقعہ کے بارے میں حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے مکمل تحقیق ضرور کر لینی چاہئے۔ زندگی چاہے مسلمان کی ہو یا عیسائی کی اُس کا یکساں احترام ضروری ہے۔ اگر فانش مسیح کو جیل میں قتل کیا گیا ہو تو اس کے خلاف ہمیں سب کو مل کر آواز بلند کرنی چاہئے لیکن حقیقت اگر اس کے برعکس ہو کہ فانش مسیح نے جیل میں خودکشی کی ہے تو اسے قتل قرار دینا بالکل اُسی طرح غلط ہو گا کہ جس طرح فانش مسیح پر قرآن حکیم کی بے حرمتی کا الزام میرے نزدیک درست نہیں تھا۔ جب میں انسانی زندگی کی حرمت کی بات کرتا ہوں کہ اُس میں عیسائی یا مسلم کی تفریق غلط ہے تو پھر میں یہاں یہ بھی عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے عیسائی بھائیوں کو بھی اپنے سوچنے کے انداز میں توازن پیدا کرنا چاہئے۔ اگر فانش مسیح کی خودکشی کے واقعہ کو ایک عیسائی یا مسلمان کی نظر سے نہ دیکھا جائے تو حقیقت حال یہ ہے کہ فانش مسیح کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اُس کی موت تشدد سے نہیں بلکہ خودکشی سے واقع ہوئی پھر ایک جوڈیشل مجسٹریٹ کی آزادانہ انکوائری میں بھی یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ فانش مسیح نے خودکشی کی ہے۔ اب اسی معاملہ کی سیشن جج کی سطح پر بھی انکوائری شروع ہونے والی ہے۔ یہ انکوائری مکمل ہونے میں یقیناً کچھ مدت درکار ہو گی۔ اس کا ہم بھی انتظار کریں گے۔ لیکن میں خاص طور پر اپنے عیسائی بھائیوں کی خدمت میں یہ گزارش کروں گا کہ وہ جیل میں ایک عیسائی نوجوان کی خودکشی کے واقعہ کو اقلیت کی نظر سے نہ دیکھیں۔ اقلیت کی نظر سے دیکھنے سے میری مراد یہ ہے کہ بہت سارے وہ عیسائی دوست سیشن جج کی انکوائری میں شہادت دینے کےلئے اپنے نام لکھوا رہے ہیں جو جیل میں موجود ہی نہیں تھے۔ یعنی وہ جیل میں پیش آنے والے خودکشی یا تشدد کے
کسی واقعہ کے عینی گواہ ہی نہیں پھر وہ کس اَمر کی گواہی دینا چاہتے ہیں۔ گواہی تو اُن افراد کی لی جانی چاہئے جو کسی وقوعہ کے براہ راست گواہ ہوں۔ یا اُن ڈاکٹروں کی شہادت جنہوں نے فانش مسیح کا پوسٹ مارٹم کیا ہے۔اتفاق سے اس وقت سیالکوٹ جیل کے سپرنٹنڈنٹ بھی ایک ایسا افسر ہے جس نے انتہائی ہوش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جیل میں فانش مسیح کے واقعہ کے فوراً بعد سیشن جج سیالکوٹ‘ ڈی پی او‘ اقلیتی نمائندوں اور تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ازخود مطلع کیا اور اُن سب سے موقع دیکھنے کی درخواست کی تاکہ کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہ رہے کہ فانش مسیح نے خودکشی کی ہے یا فانش مسیح کی موت پولیس یا جیل اہلکاروں کے تشدد کا نتیجہ ہے۔ پھر جوڈیشل مجسٹریٹ کی انکوائری میں بھی فانش مسیح کی موت کو خودکشی کا نتیجہ قرار دیا گیا۔ اقلیتی امور کے وفاقی اور صوبائی وزیر بھی جیل کا دورہ کر چکے ہیں اور انہیں صحیح حالات کا بڑی حد تک علم ہو چکا ہے۔ اب کوئی مصلحتاً سچ نہ بولے تو یہ اُس کی مرضی۔ لیکن میں دوبارہ عرض کروں گا کہ کسی عیسائی برادری کے لیڈر یا وزیر کو مذہبی بنیاد سے بلند ہو کر اپنا کردار دیانت داری سے ادا کرنا چاہئے۔ جب تمام صوبائی اور وفاقی سطح کی خفیہ ایجنسیاں‘ جوڈیشل مجسٹریٹ کی انکوائری‘ ڈاکٹروں کی مرتب کردہ پوسٹ مارٹم رپورٹ فانش مسیح کی موت کو خودکشی کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں تو پھر اس معاملے کو اقلیتوں کے مسئلے کا رنگ دینا صریحاً ناانصافی اور ظلم ہو گا۔ حقیقت کو سیاسی مصلحتوں کی بھینٹ نہیں چڑھایا جانا چاہئے۔