کائنات کا ذرہ ذرہ اپنے خالق کے تابع ہے۔ وہ اپنی ذات و صفات کے ساتھ ہر لمحہ جلوہ گر ہے۔ اس نے پوری کائنات کو عدل پر استوار کیا ہے۔ اسے ظلم پسند نہیں۔ ظلم سے مراد کسی کا حق مارنا ہی نہیں بلکہ کسی کو حق سے محروم کرنے کی کاوش میں شمولیت بھی ہے۔ حق و باطل کی قوتوں میں معرکہ آرائی ازل سے ابد تک قائم رہے گی۔ ”ستیزہ کا رہا ہے ازل سے تا امروز‘ چراغِ مصطفوی سے شرار بولہبی“۔
کفر ایک مرتبہ پھر اہلِ ایمان سے نبرد آزما ہے۔ اہلِ حق سے زیادہ طاقتور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ اہلِ ایمان تو بحرِ ظلمات میں گھوڑے دوڑانے والے ہیں۔ اپنے اندر وہ ایمان پیدا کرنے کی ضرورت ہے ہمیں اپنی ترجیحات کا از سرِ نو جائزہ لینا ہوگا۔ اہلِ کفر مسلمانوں سے خوفزدہ نہیں ہیں وہ اسلام یعنی دین محمدی سے پریشان ہیں۔ ان کی یہی خواہش ہے کہ ”روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو“۔ کیا وہ روح ہمارے اندر موجود ہے؟ یہ عہدِ حاضر کا سب سے بڑا سوال ہے۔ وہ روح یقینا ہمارے اندر موجود ہے مگر خوابیدہ ہے۔ اسی کی بیداری امریکہ کی نیند اڑا رہی ہے۔
ہمیں فی الفور اپنے اصل کی طرف لوٹ آنا چاہیے۔ ہمیں بڑی سازش کے تحت اپنے آپ سے دور کیا گیا ہے۔ ہماری تعلیمی پالیسی تک بھی اپنی نہیں کہ جس پر کوئی ملک بھی کمپرومائز کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس مستعار تعلیمی پالیسی کا مقصد پاکستان کے نظریہ¿ تخلیق کو زک پہنچانا ہی نہیں بلکہ ختم کرنا ہے۔ مادہ پرستی اور دنیا داری نے ہمیں اپنے فرض سے غافل کر دیا۔ مغربی افکار کے زیرِ اثر ایک طبقہ ایسا بھی پیدا ہوگیا جو ہماری روایات و اقدار کو رجعت پسند اور دقیانوسی سمجھتا ہے۔ اس طبقے نے کلہاڑے میں لکڑی کے دستے کا کام کیا ہے۔ یہ این جی اوز کی صورت ایک خاص مشن پر کام کر رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو امریکہ‘ برطانیہ یا دوسرے اتحادی مسلمانوں کی وسائل پر قابض ہیں۔ انہوں نے حکمرانوں کو خرید رکھا ہے۔ اس میں ذرا برابر شک کی گنجائش بھی نہیں۔ انہوں نے حکمرانوں کو ان کی خواہشات کا اسیر بنا رکھا ہے۔ حکمرانوں اور عوام کی درمیانی خلیج نے حکمرانوں کو خوفزدہ کر دیا ہے اور عوام کو متنفر۔
اللہ کا شکر ہے کہ اب حکمرانوں میں بھی احساس بیدار ہو رہا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا ایجنڈہ کچھ او رہے۔ اسے سمجھنے کے لیے ایک مثال ہی کافی ہے کہ جب ہمارے عسکری ماہرین نے امریکی جنرل کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ آپریشن میں کولیٹرل ڈیمج ہوتا ہے تو اس سے ردعمل اور بڑھتا ہے۔ مقصد یہ کہ عام مسلمان مارے جا رہے ہیں تو بچ جانے والے زندگی کو بے مقصد سمجھ کر انتہائی قدم اٹھاتے ہیں۔ انہیں بتایا گیا کہ امن معاہدے کے تحت دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا ہے تو اس امریکی جنرل نے کہاکہ وہ امن معاہدوں کے لیے نہیں بلکہ لڑنے کے لیے ڈالرز دیتے ہیں۔ ہائے
اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
اب امریکہ چاہتا ہے کہ ہم اپنے موت کے پروانے پر دستخط ثبت کر دیں۔ وہ ایک عرصے سے ہمیں حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کا حکم دے رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم ایک دوسرے کے خلاف لڑیں اور ختم ہو جائیں۔ اس وقت حکمت و تدبر کی ضرورت ہے۔ جب ہر صورت میں امریکہ مرنا ہمارے حصے میں ڈال دے تو پھر انتخاب ہمیں اپنے پاس رکھنا ہوگا۔ مرتا وہی ہے جو ڈرتا ہے یہاں جرا¿ت حیدری کی ضرورت ہے۔ اللہ ہماری نیت دیکھتا ہے اگر آج بھی ہم کھڑے ہو جائیں تو انشاءاللہ دشمن کے پاﺅں اکھڑ جائیں گے۔ اللہ اپنی فتح و نصرت ضرور بھیجے گا۔ یہ ملک پاکستان ہمیشہ ہمیشہ قائم رہے گا کیونکہ یہ اسی کے نام پر تخلیق ہوا ہے جو مکے کی حفاظت ابابیلوں سے کروا لیتاہے۔ امریکہ کی دھمکیوں سے مرعوب ہونے کی ہرگز بھی ضرورت نہیں بلکہ ممکن ہے کہ یہ Blessing in Disguiseہو اور ہماری جان امریکہ سے چھوٹ جائے۔
امریکہ زخمی سانپ کی طرح پیچ و تاب کھا رہا ہے کہ دس سال کی قتل و غارت کے بعد بھی اسے وہ مفادات حاصل نہیں ہو سکے جو اسے مطمئن کر دیں۔ اس کی معیشت اپنی جگہ برباد ہو رہی ہے مگر افغانستان سے واپس جانے والی لاشیں انہیں زیادہ پریشان کر رہی ہیں وہ اپنی شکست اور سبکی کا بدلہ پاکستان سے لینا چاہتاہے۔ اس کا ایبٹ آباد کا ڈرامہ بھی پوری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ اپنا غصہ پاکستان پر نکالنے کے لیے نئے نئے بہانے ڈھونڈ رہا ہے۔ امریکہ کی منافقت اب چھپائے نہیں چھپتی۔ خود تو وہ طالبان سے معاہدہ کے لیے ہر راستہ استعمال کر رہا ہے جبکہ ہمیں حکم ہوتا ہے کہ ٹکرا جاﺅ یعنی مر جاﺅ۔ بنیادی طور پر ہمارا ایٹمی ڈیٹرنس امریکہ کا اصل مسئلہ ہے تاکہ وہ بھارت کو اس علاقے کا تھانیدار بنا دے اور چین کو حصار میں لے آے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے اللہ کی طرف رجوع کریں۔