مینگل کے 6 نکات کے حامی مگر یہی کافی نہیں تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے: سیاسی جماعتیں

 اسلام آباد+ کوئٹہ (جاوید الرحمن+ باری بلوچ+ دی نیشن رپورٹ) پاکستان پیپلز پارٹی کے اتحادیوں نے سردار اختر مینگل کے 6 نکات پر مختلف نقطہ نظر کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ صرف یہی نکات اصل مقصد کا حل نہیں تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت بھی ضروری ہے۔ دوسری جانب بلوچستان کی قومیت پرست اور سیاسی جماعتوں نے بھی مختلف نقطہ نظر کا اظہار کیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے اتحادیوں میں سے ایک اہم شراکت دار نے بی این پی کے لیڈر کی جدوجہد کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کے لئے سنجیدگی دکھانے کی بہت ضرورت ہے۔ ق لیگ کے سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ بہت پیچیدہ ہے یہ صرف 6نکات سے حل نہیں ہو سکتا یہ مسئلہ حل کرنے کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز کو باہم مل بیٹھنا ہو گا۔ اختر مینگل اپنی تجاویز تھونپنا چاہتے ہیں وہ لمبے عرصہ تک مفرور رہے اور اب وہ اپنے خیالات تھونپنا چاہتے ہیں جو نامناسب بات ہے۔ یہ کیسی سوچ ہے فوج کے بارے میں مینگل کا بیان سالیڈیریٹی سے میل نہیں کھاتا۔ بلوچستان ایک اہم معاملہ ہے اس کے لئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے، حکومت نے بلوچستان پیکیج دیا ہے اس پر عملدرآمد ہونا چاہئے۔ متحدہ کے رہنما وسیم اختر نے کہا کہ محض بیانات نہیں مسئلہ بلوچستان کے حل کیلئے سنجیدگی ضروری ہے۔ حکومت کو مسائل حل کرنے چاہئیں۔ ایم کیو ایم نے اس حوالے سے گول میز کانفرنس کی تجویز دے رکھی ہے۔ اے این پی کے رہنما حاجی عدیل نے کہا کہ بلوچستان کی صورتحال روزبروز خراب ہو رہی ہے۔مینگل کی مختلف سیاسی جماعتوں سے ملاقاتیں اچھا شگون ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مینگل جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور وہ پاکستان میں قیام کرنا چاہتے ہیں۔ بلوچستان کے کئی مقامات پر آپریشن ہو رہا ہے۔ سٹیک ہولڈرز کو ماضی کی اپنی غلطیاں مان لینی چاہئیں۔ حاجی عدیل نے کہ سردار اختر مینگل کی جانب سے پیش کئے گئے ( 6) نکات کے ساتھ مکمل ہمدردی ہے اور ہم ان کے ساتھ ہیں ان کے موقف کی حمایت کرتے ہیںکیونکہ یہ ایک ملک بچانے کی کوشش ہے اس ظاہر ہوتا ہے وہ ملک کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، عوامی نیشنل پارٹی نے سندھ اسمبلی میں اپوزیشن نشستوں پر بیٹھنے کے لئے سپیکر سندھ اسمبلی کو درخواست دے دی ہے اب ہم سندھ میں اپوزیشن کی سیاست کریں گے۔ عوامی نیشنل پارٹی سندھ اسمبلی میں اپوزیشن میں بیٹھے گی جبکہ مرکز میں عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ کی ملک میںواپسی کے بعد کریں گے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما ثناءاللہ بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان کے لوگوں کو طاقت سے نہیں بلکہ پیار سے اپنا بنایا جا سکتا ہے۔ پرویزمشرف نے طاقت استعمال تجربہ کرکے دیکھ لیا تھا موجودہ حکومت پرویز مشرف جیسا تجربہ نہ کرے بلکہ سبق سیکھے۔ بلوچستان کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی شرط پر کئے گئے وعدے آج تک پورے نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہاکہ بلوچوں کو ڈرا دھمکا کر زیرعتاب نہیں لایا جا سکتا بلکہ ان کے دل جیت کر اپنا بنایا جا سکتا ہے۔ دی نیشن سے گفتگو کرتے ہوئے نوابزادہ جمیل بگٹی نے کہاکہ ہمارا عدلیہ پر سے اعتماد پوری طرح اٹھ چکا ہے۔ میرے والد کے کسی قاتل کو عدلیہ کٹہرے میں نہیں لے کر آئی۔ حکومت اور اس کے ادارے ہزاروں افراد لاپتہ کرنے کے حوالے سے انکاری ہیں۔ مینگل کے 6نکات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ان پر عملدرآمد کیوں نہیں ہو سکتا۔ حتیٰ کہ شیخ مجیب کے 6نکات پر بھی عملدرآمد ہو سکتا تھا مگر ان پر غور نہیں کیا گیا۔ مشاہد حسین اعتراف کرتے ہیں سول اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ہاکس عملدرآمد کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ پنڈی میں بیٹھے افراد نے بنگلہ دیش میں مظالم کئے اور اب وہ بلوچوں کا قتل عام کرا رہے ہیں۔ حاجی لشکری رئیسانی نے کہاکہ اختر مینگل نے ثابت کیا ہے کہ وہ ابھی تک پاکستان کو تسلیم کرتے ہیں اور وہ ابھی تک اس کی سلامتی پر یقین رکھتے ہیں۔ حکومت اور ادارے بلوچوں کو غدار سمجھنا بند کر دیں۔ بلوچ ری پبلکن پارٹی کے ڈاکٹر بشیر عظیم نے کہاکہ اختر مینگل قابل احترام ہیں تاہم بلوچستان کا معاملہ پوائنٹ آف نو ریٹرن تک جا پہنچا ہے اور وہ آزادی کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ حکومت اور اس کے ادارے کہتے ہیں کہ وہاں کوئی آپریشن نہیں ہو رہا پھر صوبے میں کون مظالم ڈھا رہا ہے۔ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے ثمن کاکڑ نے کہا کہ مینگل کے 6نکات بالکل ٹھیک ہیں ہم پہلے بھی یہ پوائنٹس دے چکے ہیں تاہم یہ لگتا نہیں کہ فوج اور انٹیلی جنس ادارے صوبے میں مداخلت بند کر دینگے۔ نیشنل کے سینئر وائس پریذیڈنٹ میر حاصل بزنجو نے کہاکہ اختر مینگل قابل احترام ہیں تاہم بلوچستان میں دوسری فورسز بھی موجود ہیں۔ انہوں نے کہاکہ بی این پی کو الیکشن لڑنا چاہئے۔ بلوچستان اسمبلی کے سابق اپوزیشن لیڈر کچکول علی ایڈووکیٹ نے اختر مینگل نے سپریم کورٹ میں پیش ہوکر 6نکات پیش کرنے کی مذمت کی۔ انہوں نے کہاکہ اس کی بجائے انہیں عالمی عدالت انصاف میں پیش ہونا چاہئے تھا کیونکہ عدلیہ بھی حکومت پاکستان کے ماتحت ہے۔

ای پیپر دی نیشن