اسلام آباد (اپنے سٹاف رپورٹر سے + نوائے وقت نیوز + اے این این + ثناءنیوز) بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل نے کہا ہے کہ اگر بلوچستان میں ڈیتھ سکواڈ نہیں تو کیا ”ڈینگی سکواڈ“ معصوم لوگوں کی جانوں سے کھیل رہا ہے، بلوچستان میں کوئی بیرونی ہاتھ ملوث ہے تو اسے پکڑا کیوں نہیں جاتا، کیا وہ رحمن ملک کا ”ماموں“ لگتا ہے، جھوٹ کا سہارا لینے والوں کے پاس بیرونی پاسپورٹ ہے اور بیرونی ہاتھ کا الزام ہم پر لگایا جاتا ہے، غیر ملکی شہریت رکھنے والے رحمن ملک کو بھی بلوچستان کے مسئلے پر بیرونی ہاتھ نظر آتا ہے، ہمیں بتایا جائے یہ کس کا ہاتھ ہے۔ بیرونی ہاتھ کی بات کرنےوالے بتائیں کہ سانحہ خروٹ آباد میں کون ملوث تھا، مسئلہ بلوچستان پر کوئی ادارہ مخلص نہیں، سپریم کورٹ امید کی آخری کرن ہے، قربانیاں ایوارڈ یا پیکجز کےلئے نہیں دیں، مسئلہ صرف ہمدردیوں اور معافیوں سے حل نہیں ہو گا، 65 سال سے بلوچی عوام کا سیاسی و معاشی استحصال کیا جا رہا ہے، سوئی سے نکلنے والی گیس ہمیں دینے کی بجائے اس کی بھٹیوں میں جلایا جا رہا ہے، بلوچ مائیں، بہنیں خون کی آنسو رو رہی ہیں اگر فوج کو بلوچستان کے ساتھ ہمدردی ہوتی تو اس کا رویہ سپریم کورٹ میں جارحانہ نہ ہوتا۔ عمران خان نے چھ نکات کی حمایت کی ہے۔ غلطی کو تسلیم کئے بغیر مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ اتنے جنازے اٹھائے ہیں مزید نہیں اٹھائیں گے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے ساتھ ملاقات کے بعد ان کے ساتھ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اختر مینگل نے کہا کہ ہم نے ملاقات میں وہ باتیں کی ہیں جس سے میرا سر فخر سے بلند ہو گا۔ ہماری ملاقات کو کئی لوگ دوسرا رنگ دینا چاہیں گے۔ تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں پیش کئے گئے میرے 6 نکات کی حمایت کی۔ معافیوں سے بلوچستان کے مسائل حل نہیں ہونگے۔ بلوچستان کے ساتھ جو گزری اس پر حکومت کو پچھتاوا نہیں ہے۔ عمران خان نے کہا کہ سیاسی مسائل کا حل سیاسی ہوتا ہے فوجی آپریشن حل نہیں ہو سکتا۔ جب فوج سب کچھ کر رہی ہے تو پھر حکومت کا کیا کردار ہے۔ کراچی میں روزانہ 10 افراد قتل ہو رہے ہیں حکومت کراچی میں بھی ناکام رہی۔ بلوچستان میں تمام معاملات فوج چلا رہی ہے۔ بلوچستان کے معاملات پر حکومت ناکام ہو گئی۔ بلوچستان کے عوام پر بہت کچھ گزرا ان سے دلی ہمدردی ہے۔ ہم نے مشرقی پاکستان سے کیا سبق سیکھا؟ بلوچستان میں فوجی آپریشن کئے۔ فاٹا میں فوج بلائی۔ ایک سوال کے جواب میں اختر مینگل نے کہا کہ بلوچستان کیس میں اٹارنی جنرل لیفٹیننٹ جنرل کے طور پر پیش ہوتے ہیں۔ گیس سوئی سے نکالی جاتی ہے مگر اب تک سوئی کو گیس نہیں ملی۔ ہمیں گیس کی بھٹیوں میں جلایا جا رہا ہے۔ 65 سال سے استحصال کیا جا رہا ہے۔ پنجاب کی سیاسی جماعتیں اس بلا کے پنجے اور ناخن کاٹ سکتی ہیں۔ حکومت پر اعتماد ہوتا تو پہلے دن ان کے دروازے پر آتا۔ بلوچستان پر جو گذری اس پر حکومت کو پچھتاوا نہیں۔ بلوچستان میں بیرونی ہاتھ صرف رحمن ملک کی عینک سے کیوں نظر آتا ہے۔ انہیں بیرونی ہاتھ کہیں اس لئے تو نظر نہیں آتا کہ ان کے پاس غیر ملکی پاسپورٹ ہے۔ ہم کبھی خیرات پیکجز، این ایف سی ایوارڈ کے طلبگار نہیں رہے۔ ہم نے جیلیں، پھانسیاں ایوارڈز یا پیکجز کے لئے نہیں کاٹیں۔ اختر مینگل نے بلوچستان اسمبلی کے واحد اپوزیشن سردار یار محمد رند سے اہم ملاقات کی، سردار اختر مینگل نے دیگر بلوچ رہنماﺅں ثنااللہ بلوچ اور عبدالرﺅف مینگل کے ساتھ سردار یار رند سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ ملاقات میں بلوچستان کی موجودہ صورت حال کے مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق دونوں رہنماﺅں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ صوبے کے عوام کے لئے بحالی اعتماد کے اقدامات کے بغیر حکومت سے بات نہیں کی جائے گی۔ حکومت کو عوام کو مطمئن کرنے کے لئے سیاسی اقدامات کرنا ہوں گے۔ مستقبل میں رابطے برقرار رکھنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے سردار یار محمد رند نے کہا کہ اختر مینگل سے ملاقات اچھی رہی۔ اختر مینگل کے اکثر نکات کی حمایت کرتا ہوں۔ صرف سپریم کورٹ میں پیش ہونا چاہتا ہوں۔ سپریم کورٹ بار کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اختر مینگل نے کہا کہ ہم نے دیکھا تخت بھی گرائے گئے اور تاج بھی اچھالے گئے، کالے کوٹ والوں نے عدلیہ آزادی کی تحریک چلائی انہیں مبارکباد دیتا ہوں۔ بلوچستان میں ہونے والے ظلم کو مہربانیوں کا کام دوں گا، ظلم کو کوئی نہیں مانتا، ابھی ایک تختہ گرایا گیا اور ایک وردی اتاری گئی۔ اختر مینگل نے کہا ہے کہ میرے چھ نکات اور شیخ مجیب کے نکات کو ایک نہ سمجھا جائے اور اس کو ایشو نہ بنایا جائے ان کے چھ نکات میں علیحدگی کا ایک بھی نقطہ شامل نہیں تھا جب ان چھ نکات کو نہیں مانا گیا تو پھر حالات علیحدگی کی طرف چلے گئے‘ بلوچستان کو برمودا ٹرائی اینگل نہ سمجھا جائے‘ جب تک بلوچستان میں لاپتہ افراد اور ٹارگٹ کلنگ کے ذمہ داران کو سزائیں نہیں دی جاتیں تب تک حالات معمول پر نہیں آسکتے‘ بلوچستان میں سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو یا تو راستے سے ہٹا دیا گیا ہے یا پھر انہیں دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا ہے تاکہ بلوچستان میں سیاسی عمل شروع نہ ہو سکے حکمرانوں نے نواب اکبر بگٹی کے قاتلوں کو ریڈ کارپٹ بچھا کر رخصت کیا۔ ہمارے زخموں پر نمک پاشی کے بجائے تیزاب پاشی کی جا رہی ہے‘ حکمران اپنے عمل سے حالات مزید خراب کر رہے ہیں‘ بلوچستان کے ہر گھر میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک پاسپورٹ دینے سے کسی کو پاکستانی نہیں بنایا جا سکتا‘ حکمرانوں کو چاہئے کہ ہمیں پاکستانی بنانے کیلئے کوئی ٹھوس اقدام کریں۔ مشرقی پاکستان کے سانحہ کے ذمہ داروں کو کسی عدالتی کٹہرے میں لایا جاتا اور انہیں سزائیں ملتیں تو حالات اس قدر خراب نہ ہوتے۔ سپریم کورٹ کی دیواروں کو پھلانگ کر چیف جسٹس کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا جاتا ہے اور کوئی پوچھتا تک نہیں۔ شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات میں ایک بھی لفظ آزادی کا نہیں تھا اگر میں غلط ہوں تو مجھے بھی نواب نوریز خان کی طرح پھانسی پر لٹکایا جائے‘ اس کی بنیادی وجہ غرور و گھمنڈ جنہوں نے بنگالیوں کو انسان نہیں سمجھا تھا۔ الیکشن سے قومیت پرست جماعتوں کو جان بوجھ کر باہر رکھا گیا ہے۔ اختر مینگل نے کہا کہ ایم کیو ایم کے رہنما¶ں نے ٹیلی فون پر بات کی تھی ہم نے کبھی سکرپٹ پر سیاست نہیں کی، کبھی پتنگیں نہیں اڑائیں، ایم کیو ایم رہنما¶ں نے پوچھا کب جا رہے ہیں میں نے کہا آج جا رہا ہوں۔
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی، نوائے وقت رپورٹ) امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے کہا ہے کہ انتخابات سے قبل تمام حکومتوں، سیاسی قوتوں، مقتدر اداروں کو لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنا چاہئے۔ جماعت اسلامی تمام اپوزیشن سیاسی جماعتوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ بلوچستان اور لاپتہ افراد کے حوالے سے پلیٹ فارم بنائیں اور یک نکاتی ایجنڈا اختیار کریں۔ اس سے سپریم کورٹ کو بھی تقویت ملے گی۔ وہ اختر مینگل سے ملاقات کے بعد ان کے ساتھ اخبار نویسوں سے گفتگو کر رہے تھے۔ ملاقات میں جماعت اسلامی کے رہنما میاں محمد اسلم بھی موجود تھے۔ ملاقات کے بعد اختر مینگل نے کہا کہ جماعت اسلامی کے رہنماﺅں کو بھی بلوچستان پر ہونے والے مظالم کے بارے میں بتایا۔ اسلام آباد آ کر سب کو اپنا دکھڑا اپنی داستان سنائی۔ سید منور حسن نے کہا کہ بلوچ پہلے بھی محب وطن تھے، اب بھی ہیں اور لاپتہ افراد کا معاملہ سرفہرست ہے۔ بلوچستان میں سب کو معلوم ہے کہ کون لوگوں کو اٹھا کر لے جاتا ہے۔ بلوچوں کو دیوار سے لگا کر اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش ناکام ہو گئی ہے۔