پاکستان مسلم لیگ ن نے انتخابات میں پیپلز پارٹی کا صفایا کرکے جو حکومت تشکیل دی‘ اس نے ساڑھے تین ماہ کے عرصہ اقتدار میں کم از کم توانائی بحران سے نجات تو درکنار اس میں ذرہ بھر بھی کمی نہیں کی جا سکی‘ توانائی بحران سے نمٹنے کےلئے چین‘ ایران‘ ترکی اور بعض دیگر دوست ممالک سے جو معاہدات کئے گئے‘ موجودہ حکومت ان میں سے جان چھڑا رہی ہے اور خصوصاً پاک ایران گیس پائپ لائن پراجیکٹ پر عملدرآمد میں خاموشی سے گریز کیا جا رہا ہے۔ ایران گیس پراجیکٹ کے معاہدے پر عملدرآمد میں سستی دکھانے کی تازہ ترین مثال پٹرولیم و گیس کی وزارت کے ذرائع کا یہ بیان ہے کہ حکومت پاکستان نے ایران سے رابطہ پیدا کرکے اس بات پر زور دیا ہے کہ تین ارب ڈالر اخراجات کے اس پراجیکٹ پر عملدرآمد کے لئے مزید ایک ارب ڈالر کا خرچہ بھی ایرانی حکومت ہی برداشت کرے کیونکہ بقول وفاقی وزارت کے حکومت کے پاس اس خطیر رقم کی دستیابی کے مطلوبہ وسائل نہیں ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایران اس پراجیکٹ پر 50 کروڑ ڈالر کے اخراجات تو خود ہی برداشت کرنے کی پیشکش کر چکا ہے بلکہ گیس پائپ لائن اپنی سرحد کے قریب پاکستانی علاقے تک بچھا بھی چکا ہے۔ منصوبے کے مطابق چار بہار کی سرحدی چوکی سے نواب شاہ تک 900 کلو میٹر طویل پائپ لائن بچھانے کا کام حکومت پاکستان کے سپرد کیا گیا تھا اس پراجیکٹ سے متعلق پاک ایران معاہدے کی ایک اہم شق کو بھی پاکستان افسوسناک حد تک نظرانداز کر رہا ہے جس کے تحت سال 2014ءتک اگر اس بارے میں مسلسل غفلت کا مظاہرہ کیا جاتا رہا تو ایرانی حکومت روزانہ 50 لاکھ روپے کے برابر جرمانہ وصول کرے گی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ صدر آصف زرداری نے محض سر پر کھڑے انتخابات میں رائے دہندگان کو گمراہ کرنے کےلئے یہ آخری ایام میں نہ صرف ایرانی گیس معاہدے پر بلکہ گوادر پورٹ کی تعمیر کے میگا پراجیکٹ کو چین کے حوالے کرنے کے معاہدے کئے تھے لیکن یہ الیکشن سٹنٹ بھی ناکام ثابت ہوا۔ افسوس کا مقام ہے کہ ایک جانب مسلم لیگ ن کے رہنما آئے دن اعلان کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان گیس پائپ لائن پراجیکٹ کی تکمیل کےلئے پرعزم ہے اور دوسری جانب معاہدے پر عملدرآمد کے بارے میں اشد ضروری اقدامات سے گریز کیا جا رہا ہے جبکہ وزارت گیس و پٹرولیم کی جانب سے آنے والا مذکورہ بالا بیان صاف تو ظاہر کرتا ہے کہ نواز شریف حکومت بھی بڑی خاموشی سے ایران کے ساتھ کئے گئے معاہدے سے جان چھڑا رہی ہے اور اس سلسلے میں اسے بیورو کریسی کی جانب سے گمراہ کیا جا رہا ہے۔ حکومت کو سمجھانے کی ہرگز ضرورت نہیں کہ اگر وہ اپنے دوست برادر اسلامی ملک ایران کو ناراض کرتی رہی اور توانائی بحران کے خاتمے کےلئے اس کی دی گئی مراعات کو ٹھکراتی رہی تو قومی معیشت پر تباہ کن اثرات ہونگے اور آئندہ سے ایرانی حکومت بھی ہماری معاشی بدحالی دور کرنے میں اشتراک سے گریز کرتی رہے گی۔