گپ شپ کا انداز۔گفتگو عام سا انداز اختےار کےے ہوئے ۔ الفاظ عمل کے اخلاص سے عاری ۔ اےک اور وعدوں بھری تقرےر نما ”تسلی“۔ وزےر اعظم نے پاکستان کی آبادی کے اےک بڑے حصہ (ےوتھ)کےلئے مختلف سکیموں کا اعلان فرماےا صاف دکھائی دےتا تھا کہ ”نواز شرےف صاحب“ کو ملکی مسائل کی بھر مار اور سنگےنی کا پورا احساس ہے۔۔ خواتےن۔ نوجوانوں کو کاروبار کے لےے قرضہ سکےم کا اعلان ےقےنا مفےد گردانا جا سکتا ہے مگر اِن حالات مےں کہ اپنی پےدائش سے ہی مقروض پےدا ہونے والا بچہ بڑا ہو کر حکومت سے اپنی ذات کے لےے پہلی بار براہ راست قرضہ وصول کر سکتا ہے فرق صاف واضح ہے۔۔ اب تک حکومتےں عوام کے لےے اندرون و بےرون سے قرضے وصول کرتی آرہی تھےں اب پہلی مرتبہ عوام کے دو طبقات حکومت سے قرضوں کی براہ راست وصول والی خوش قسمت فہرست مےں شامل ہو گئے ہےں۔۔فائدہ ،نقصان سے قطع نظرےہ دےکھنا ضروری ہے کہ پہلے سے جاری کردہ سکیموںکے نقصان دہ پہلو کتنے ہےں اور کتنے فوائد قوم کی جھولی مےں آئے۔۔دو روپے کی ”روٹی“ سے لےکر لےپ ٹاپ“ کی تقسےم تک کتنے لوگ فےضےاب ہوئے اور کتنے لوگوں کے گھروں مےں دورس اثرات پہنچے (کمشن مافےا)؟؟
تمام حساب کتاب کے بعد سےدھا سا جواب یہی لگتا ہے کہ تمام سکیمیں ”نئی پےکنگ مےں پرانا مال“والی صورتحال ہے۔۔ وےلفئےر کی کوئی بھی سکےم ۔ تجوےز ہو۔۔ مفےد ہی تصور کی جاتی ہے۔۔ناکامی کی وجہ صرف یہی ہوتی ہے کہ ”سکےم“ کو اول دن والی گرمجوشی سے جلد ہی محرومی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔۔ ہر تقرےر ۔اعلان۔ سکےم پُرزوز تالےوں ۔نعروں۔ چہروں کی پھےلتی لالی سے شروع تو کر دےا جاتا ہے مگر پےچھا نہےں کےا جاتا۔۔کرپشن توجہ کے معاملہ مےں اب اےک ثانوی درجہ اختےار کر چکی ہے مگر کم تو کی جا سکتی ہے۔۔شفافےت کے اصول کر فراموش کرنا بھی” سکےموں “ کی ناکامی کا باعث بنتا ہے۔۔مانا کہ تعلےم اور روزگار بہت ضروری ہےں مگر ےہ اور بھی زےادہ ضروری ہے کہ عوام کو فوری طور ی پر اقتصادی رےلےف دے۔۔ کوئی بھی سکےم تب تک خاطر خواہ ۔ مفےد نتائج نہےں لا سکتی جب تک ماحول کو ساز گار نہ بناےا جائے۔۔ ترقی کے محددو مواقوں کی موجودگی مےں غربت تو کم نہےں ہو سکتی ہے۔۔”آئی ۔اےم ۔ اےف“ نے آئندہ 5 سال مےں بےروزگاری 9 فےصد تک بڑھنے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان مےں مزدورں کی شرح 3-5 فےصد بڑھ رہی ہے۔۔ ان حالات مےں تو قلےل مدتی ےا ”ڈنگ ٹپاﺅ“ اعلانات کی بجائے باعمل ۔ٹھوس طوےل المدت اقدامات کی جانب آغاز ہونا چاہےے۔۔ ضلع سانگھڑ مےں ” 9 آئل کمپنےوں“ کے حوالے سے کےس کی سماعت کے دوران قابل احترام ”چےف جسٹس“ کے ےہ الفاظ نہےں بھولنے والے کہ غرےب لوگ بچےاں درےاﺅں مےں پھےنک رہے ہےں۔۔بغےر جوتی کے لوگ ہاتھوں مےں کشکول لےے بھےک مانگ رہے ہےں۔۔ خزانے مےں بےشمار پےسہ ہے اسے درست طرےقے سے خرچ نہےں کےا جا رہا۔۔ےہی
ہمارا آج کا موضوع ہے کہ کچھ بھی بُرا نہےں صرف طرےقہ کار درست ہونا چاہےے۔۔معاشی مواقع اور ناکافی روزگار نے معاشرہ کو نہ صرف بانٹ کر رکھ دےا ہے بلکہ جرائم کا بڑھتا ہوا گراف بھی بے روزگاری کے سبب ہے۔۔بھتہ خوری ۔اغوا برائے تاوان مےں ملوث افراد مےں 25 اےم اے پاس ہےں۔۔کےونکہ پاکستان مےں امےر ترےن افرادکی تعداد 450 ہو چکی ہے جن کے پاس مبےنہ طور پر ”53 کھرب“ روپے ہےں۔۔ اتنی دولت کی خبر پڑھ کر کےا کوئی بے روزگار ےا تسلی بخش معاشی معےار برقرار نہ رکھنے والا اپنے دماغ مےں کوئی مثبت بات سوچے گا ےا پھر خبر پڑھ کر ”ماشاءاﷲ“ کہے گا۔۔ نہےں ہرگز نہےں بلکہ بے لگام مےڈےا کے فلموںاور ڈراموں کے سکھائے ہوئے سنسنی خےز طرےقوں پر عمل کر کے سےدھا اےسے لوگوں کے کوائف معلوم کرے گا۔۔ اور اُن تک پہنچنے کے طرےقے سوچے گا۔۔اُن سے بزور قوت پےسہ چھیننے کے لےے۔۔
بھلے سے حکومت کتنے ہی دعوے کرئے ۔عوام سے بذرےعہ تقارےر۔مگر مقصد سے لگاﺅ بھی تو نظر آنا چاہےے۔۔ےکسوئی اور فرض شناسی بےانات سے نہےں عملی اقدامات سے ظاہر ہوتی ہے قوم کو سابقہ حکومتوں کو رگےدنے ےا خزانہ خالی ہونے کی دہائی دےنے کی ضرورت نہےں۔۔ آئے روز کے بڑھتے جنسی استحصال کو روکنے کے لےے وقتی اجلاسوں۔۔ نوٹس لےنے ےا تصوےرےں چھپوانے والی کہانےاں اب عوا م کو اُکتا رہی ہےں۔۔ منتشر اذہان۔۔منتشر سوچوں اور روےوں کو پروان چڑھاتا ہوا معاشرہ اب اےک وحشی۔اجڈ جنگل کا منظر پےش کررہا ہے۔۔ ان سب کا ترےاق صرف معاش کی مساوی بنےاد پر تقسےم اور اعلان کردہ سےکمےوں کی 100% کامےابی کے لےے چےک اےنڈ بےلنس ہی واحد کلےہ ہے۔۔
”نئی پےکنگ مےں پرانا مال“
”نئی پےکنگ مےں پرانا مال“
Sep 30, 2013