وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو آج سے نہیں برسوں پہلے سے جانتا ہوں۔ ان کی ایک ایک خوبی ایک ایک خامی کو انگلیوں پرگن اور گنوا سکتا ہوں۔ ایک انسان ہونے کے ناطے خوبیوں خامیوں کا ان کی ذات سے وابستہ ہونا فطری چیز ہے لیکن شہباز شریف کی جس بات نے مجھے ہمیشہ متاثر کیا ہے بیان کرکے اپنے دال و دماغ کا بوجھ ہلکا کرنا چاہ رہا ہوں۔
شہباز شریف بلا کا درد دل رکھنے والے ایک انسان کا نام ہے، دکھی اور بیمار انسانیت کو دیکھ کر تڑپ اٹھتا ہے۔ اور جہاں تک میں جان پایا ہوں کہ کسی دکھی اور بیمار شخص کو دیکھ کر ان کی رگ انسانیت پھڑکنے لگتی ہے۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ بالمقابل دکھی اور بیمار انسان پلک جھپکتے ہی صحت مند اور توانا ہو جائے۔ شہباز شریف جب جب اقتدار میں آئے عام انسانوں کی صحت کو اہمیت دی سوسائٹی کو صحت مند رکھنے کے لئے پہنچ سے زیادہ و سائل صحت عامہ پر سرف کر دیئے۔ چار پانچ دفعہ اقتدار میرے کہے ہوئے کو سچ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے۔
قارئین یقینا محو حیرت ہونگے کہ صحت کے اسرار پر اکثر و بیشتر تنقید کرنے والا پہ قلمکار آج کس طرف چل نکلا ہیں۔ ہمارے ہاں رواج ہے کہ ذاتی فائدے کے لئے تعریف اور تنقید کی جاتی ہے اس تعریف اور تنقید کا سر ہوتا ہے نہ پیر۔ ہمارے اکثر ٹی وی چینلز و جرائد بطور ثبوت پیش کئے جاسکتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ صحافت نہیں کر رہے بلکہ ذاتی دوستی یا دشمنی نبھا رہے ہیں۔ PAT اور PTI کے پیش حالیہ دھرنوں میں تو چند ٹی وی چینلز کے مابین باقاعدہ مقابلے کی دورانگی رہی اور یہ سلسلہ نیوز جاری و ساری ہے۔ ایسا کرنے والے کون لوگ ہیں یقینا صحافت کے مقدس نام پر بدنما دھبہ ہیں۔ انہوں نے خود کے ساتھ ساتھ صحافت کو بھی بازار میں بکنے والی چیز بنا دیا ہے۔ بات شروع کی تھی صحت عامہ کی مگر کہاں سے کہاں پہنچ گئی اس کیلئے معذرت کیونکہ مذکورہ جملوں کا بیان کر دینا اشدضروری تھا تاکہ میرے قارئین، سچ کو سچ کے طور پر ہی پڑھ سکیں۔
محکمہ صحت کو تین خواجگان کے حوالے کردینے کے کئی مطلب نکالے گئے بعضوں نے اسے شہباز شریف کی اقربا پروری کا نام دیا اور اکثر نے اسے شہباز شریف کا مثبت اقدام قرار دیا البتہ ایک نکتہ پر تمام لوگ متفق پائے گئے کہ تینوں خواجہ حضرات ہیں شریف النفس انسان، مشیرصحت خواجہ سلمان رفیق بنیادی طور پر بہت زیادہ حساس اور غریب پرور انسان ہیں شرافت و انکساری اس پورے کنبے کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ میں نے ایک بار برادرم سلمان رفیق سے دوستانہ ماحول میں کہ تھا کہ اگر آپ سرکاری ہسپتالوں کے پروفیسر اور سینئر ڈاکٹروں کو غریب دوست بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ تو میں اپنی بقیہ زندگی آپ کے نام کردونگا۔ یہ سریا زدہ مسیحا سرکاری ہسپتالوں میں صرف بھاری بھرکم تنخواہیں لینے کے لئے آتے ہیں یہیں سے انہیں مرغوں کی صورت میں مریض مل جاتے ہیں اور وہ ذاتی کلینکوں اور ہسپتالوں میں لے جا کر ان مرغوں کو بری طرح ذبح کرتے ہیں غریب اور سفید پوش مریضوں کو دیکھنا اور ان سے ملنا توہین سمجھتے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں عام مریض ان کے قریب نہیں بھٹک سکتا۔ سرکاری ہسپتالوں کے ایم ایس حضرات ان سے بات کرتے ہوئے گھبراتے ہیں۔
برادرم سلمان رفیق جب سے پنجاب حکومت کے مشیر صحت ہیں تمام تر تگ و دور اور محنت کے باوجود سرکاری ہسپتالوں کا قبلہ درست نہیں کرسکے۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے شائد اس بات کے پیش نظر خواجہ عمران نذیر کو سلمان رفیق کے ساتھ مختص کیا تھا تاکہ ہسپتالوں کی بدتر صورتحال کو درست کیا جاسکے مگر عمران نذیر نے بھی خود کو ڈینگی تک محدود کرلیا ہوا ہے شائد ساکھ بچانے کے لئے، ہر شریف انسان عزت بچاتا ہے۔ پنجاب انسٹیٹوٹ آف کارڈیالوجی کے دن بدن خراب ہوتے ہوئی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ہی خواجہ احمد حسان کو پی آئی سی بورڈ کا سربراہ بنایا گیا تھا وہ کہا تک کامیاب ہوتے ہیں آنے والے وقت بتائے گا کیونکہ خواجہ احمد حسان کے آجانے کے بعد بھی غریب و سفید پوش مریض سینئر ڈاکٹروں کو معیاری دوائی اور علاج کو ترس رہے ہیں۔ پی آئی سی کی ایمرجنسی دیکھ کر عام انسان تڑپ اٹھتا ہے اور یہ امر جناب شہباز شریف کے لئے لمحہ فکر یہ ہے۔ گردنوں کے سر پٹے توڑے بغیر اصلاح احوال کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ یہاں میں پی آئی سی کی ایم ایس ڈاکٹر عبیدہ نگہت کا خصوصی طور پر ذکر کرنا چاہوں گا سرکاری ہسپتالوں کو ان جیسے دھڑے کے منتظمین اور ایم ایس حضرات کی ضرورت ہے۔
چلتے چلے جناب شہباز شریف کی توجہ ایک اہم ایشو کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ یہ بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کو دی جانے والی دوائیوں کا وہ معیار نہیں جو ہونا چاہئے۔ ایسی ہی غیر معیاری دوائیں پہلے بھی کئی قیمتی جانیں لے چکی ہیں۔ امید ہے کہ خادم پنجاب نہ صرف غیر معیاری دوائیں پر نظر رکھیں گے بلکہ خواجہ احمد حسان، خواجہ سلمان انہیں اور خواجہ عمران نذیر کو اتنا تگڑا بنا دینگے کہ سریازہ مسیحا من مانیاں کرنے سے باز رہیں۔
صحت عامہ اور خواجہ برادران
Sep 30, 2014