سُنتی ہوں اُس کے قصِے اِدھر اُدھر سے میں

یہ بھی خوب رہی کہ تامل ناڈو کی وزیراعلیٰ جے للیتا کو 66 کروڑ کے ناجائز اثاثوں پر بھارتی عدالت نے ایک ارب روپے جرمانہ اور 4 سال قید کی سزا سنائی ہے۔ گویا آپ کرپشن کریں اور لوگوں کے گلے کاٹیں مگر جب بیس تیس سال اقتدار اور دولت کا جُھولا جُھول لیں تو عدالت آپ کو صرف اتنی سزا سنائے کہ ہر آدمی کو تحریک ملے۔ یعنی کرپشن کر لو تو تیس سال عیش کرکے چار سال اگر جیل کاٹنی پڑ جائے تو سودا کچھ بُرا نہیں ہے۔ جیل میں کونسی چکی پیسنی ہے۔ یا اینٹوں اور فرش پر سونا ہے۔ یقین نہیں آتا کہ جے للیتا جیسی مہان تجربہ کار سیاستدان نے صرف 66 کروڑ کی کرپشن کی ہے جبکہ وہ حاضر سروس وزیراعلیٰ ہیں۔ ہمارے وزیراعظم کے معصوم اور بھُولے بھالے صاحبزادے کو دیکھئے جو اپنی بھری جوانی میں آٹھ سال تو جلاوطنی کی حالت میں سعودی عرب رہے۔ 2010ء میں لندن میں کاروبار سیٹ کیا اور محض چار سال میں اتنے امیر ہوگئے کہ 800 کروڑ کے محض فلیٹ میں رہائش پذیر ہیں۔ اس کے علاوہ جو اُن کی بزنس ایمپائرز ہیں۔ اُن کی مالیت غالباً 8000 کروڑ ہے۔ کچھ یہی صورتحا ل پاکستان کے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے ڈالروں اور پلازوں کی ہے۔ اُن کے صاحبزادے علی ڈار نے دبئی میں پہلے دس امیر آدمیوں کے ساتھ کھڑا ہونا شروع کر دیا ہے۔ افتخار چودھری کے صاحبزادے ارسلان افتخار نے بھی تمام بزنس مینوں کو حیران بلکہ پریشان کر ڈالا جب پتہ چلا کہ جناب پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں جس کی محدود آمدنی ہوتی ہے مگر وہ بزنس میں ڈاکٹریٹ کی مہارت دکھا کر صرف پانچ چھ سالوں میں کروڑوں سے اربوں میں کھیلنے لگے ہیں۔ بلاول بھٹو تو خیر باپ دادا اور ماں‘ نانا نانی کی طرف سے ہی مالدار ہیں مگر 26 سال کے ہونے کے باوجود ابھی تک ہم عمر لڑکوں لڑکیوں کے ساتھ کھیلتے کودتے ہیں یا پھر ’’ٹوئیٹ‘‘ پر لیڈری کے جوہر دکھاتے ہیں۔ اُن کے والد نے اتنا مال و زر اکٹھا کر لیا ہے کہ بلاول سے اگلی سات نسلیں بھی بیٹھ کر کھائیں گی۔ فلپائن کی امیلڈا مارکوس‘ مصر کے حسنی مبارک اور لیبیا کے معمر کرنل قذافی نے بھی زندگی بھر دولت کے انبار اکٹھے کئے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ لاکھوں کروڑوں اور کروڑوں اربوں یا کھربوں میں بدلنے والے اس قدر حریص‘ بے حس‘ غاصب اور ظالم کیوں ہوتے ہیں۔ دولت کے انبار اکٹھے کرکے وہ اپنی کیسی جبلت کی تسکین کرنا چاہتے ہیں۔ جے للیتا کی عمر 65 سال کے لگ بھگ ہے۔ اس عمر میں ایک روٹی‘ ایک جوڑا اور ایک بستر کافی ہوتا ہے۔ جس اولاد کیلئے آدمی دوسروں کا حق مارتا یا گلا کاٹتا ہے‘ کیا وہ اولاد آخرت میں اپنے والدین کی کرپشن اور گناہ اپنے کھاتے میں لے لیں گے؟؟؟ کیا اتنی دولت انسان قبر میں اپنے ساتھ لے جائے گا؟ کیا اُسے اُس ضمیر‘ اس کرپشن‘ بددیانتی‘ سازش اور مکر بازی پر معاف کر دے گا؟؟؟ افسوس!ْ یہاں تک لوگوں کا دماغ پہنچتا ہی نہیں بلکہ ذہن کے تمام بلب فیوز ہو جاتے ہیں۔ جے للیتا کو تو اُس کی عدالت نے فوراً سزا سنا دی مگر ہمارے ہاں تو یہ سسٹم بھی رائج نہیں ہے۔ پاکستان میںکرپشن مافیا سرگرم ہے۔ اب عمران خان نے نئے پاکستان کا نعرہ بلند کیا ہے اور تبدیلی کی بات کی ہے۔ تبدیلی کے اثرات تو واقعی تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ توقع ہے کہ 2015ء میں پاکستان بدل چکا ہوگا۔کافی لوگ بالخصوص (ن) لیگ کی لابی عمران خان کی تبدیلی سے سخت نالاں ہیں۔ دیکھا جائے تو عمران خان نے جلسوں‘ دھرنوں کا روایتی طریقۂ کار بدل کر رکھ دیا ہے۔ جلسوں کے شرکاء خوشدلی‘ محبت اور اپنی مرضی سے آتے ہیں۔ ترانے اور گانے سماں باندھ دیتے ہیں۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں اُس پر وجد میں آجاتے ہیں۔ جھُومتے ہیں یا دھمال ڈالتے ہیں۔ سب نے تحریک انصاف کے جھنڈے‘ کیپ‘ سٹار اور گلے میں دوپٹے یا چادر ڈال کر پورا جلسہ رنگوں سے بھر رکھا ہے۔ عمران خان نے اپنے جلسوں کو اس قدر دلچسپ‘ ولولہ انگیز‘ معلوماتی اور خوش رنگ بنا دیا ہے کہ لوگ ٹی وی سکرین کے آگے سے نہیں ہٹتے اور جو لوگ جلسوں میں بدرجۂ اتم موجود ہوتے ہیں‘ وہ نہ تھکتے ہیں نہ اُکتاتے ہیں۔ نہ ہی جانے کا نام لیتے۔ صبح اُٹھ کر وہ ہشاش بشاش اپنے اپنے کاموں پر چلے جاتے ہیں۔ عمران خان کے جلسوں کی کامیابی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اُس میں ہزاروں لاکھوں لوگوں کی موجودگی کے باوجود کبھی بدنظمی نہیں ہوتی۔ عمران خان نے پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ایک ’’تحریک‘‘ کو نئی معنویت دی ہے۔ اس میں جدت‘ جوش اور جامعیت ہے۔ عمران خان نے لاہور میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ کرکے کامیابی کو مقدر بنا لیا ہے۔ اس جلسے میں عمران نے قوم سے وعدہ لیا کہ قوم نے سچ بولنے کی عادت ڈالنی ہے اور جھوٹ‘ کرپشن اور بزدلی تینوں عیبوں سے نجات حاصل کرے گی۔ عمران خان نے اپنی تقریروں میں واضح طورپر کہا ہے کہ وہ پاکستان میں ایک نظامِ تعلیم رائج کریں گے۔ عمران خان نے یہ بھی کہا کہ ہم تعلیم‘ درسگاہوں اور استادوں کو سب سے زیادہ احترام اور مقام دیں گے۔ میں نے ایم فل اور پی ایچ ڈی دونوں میں ٹاپ پوزیشن حاصل کی مگر دس ماہ گزر جانے کے باوجود مجھے حکومت کی طرف سے ایک بار بھی جھوٹے منہ کسی جاب کی آفر نہیں کی گئی۔ حکومت نے کبھی مجھ سے میری خدمات اور میرے تجربات سے استفادے اور میری عزت افزائی کیلئے کوئی قدم نہیں اُٹھایا گیا۔ اس سے زیادہ ہماری حکومت کی کیا نااہلی ہوگی کہ جعلی ڈگریوں والے ایم پی ایز‘ ایم این ایز‘ مشیر‘ وزیر ہیں۔ وزیرتعلیم صوبائی ہوں یا وفاقی … اُن کی اپنی واجبی ڈگریاں مشکوک ہیں۔ جس ملک میں اسمبلیوںمیں بیٹھے ہوئے آدھے سے زیادہ لوگ جعلی ڈگریوں والے ہوں‘ وہ کیا آئین اور قانون کی تشریح کریں گے۔ وہ کیا ملک میں ترقی اور خوشحالی لائیں گے۔ جن لوگوں کے پاس بی اے کی ڈگریاں بھی مشکوک ہوں‘ وہ کیا اصلاحات کریں گے اور اپنے سے بہتر یا بدتر کو اپنے آگے آنے دیں گے۔
 عمران خان کی پارٹی میں اعلی تعلیم یافتہ افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اس لئے ہر کوئی اچھا مشورہ دیتا ہے۔ اسی لئے صرف ایک عمران خان نے پاکستان اور پاکستانیوں کو بدل کر رکھ دیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن