جب مینارِ پاکستان انسانوں سے چھلک پڑا

Sep 30, 2014

محمد یاسین وٹو....گردش افلاک

تحریک انصاف کا مینار پاکستان پر جلسہ بلا شبہ ایک تاریخی جلسہ تھا۔ ہر طرف انسان ہی انسان تھے۔ انسانوں کا ایک سمندر ٹی وی چینلز پر دکھایا جاتا رہا۔ اگر یہ کہاجائے کہ انسانوں سے مینار پاکستان چھلک رہا تھا تو بالکل درست ہوگا۔ یہ جلسہ عمران خان کے لاہور میں  30اکتوبر 2011ء کے جلسے سے کم از کم دُگنا تھا۔ اُسی جلسے سے عمران خان کی سیاست میں کامیابیوں کی راہ ہموار ہوئی تھی۔ اُس جلسے میں عمران نے جو باتیں کیں ان میں اہم کرپشن کی نشاندہی کرتے ہوئے اسکے خاتمے کا عز م شامل تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔ کرپشن کی وجہ سے ملک کو تین سو ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ پاکستان میں کوئلے اور پانی سے ساٹھ ہزار میگاواٹ سستی بجلی بنائی جاسکتی ہے لیکن یہ بجلی بنائی نہیں جائیگی کیونکہ اس سے کمیشن نہیں بنتی۔ ہم نے پٹواری کلچر، تھانہ کلچر بدلنا اور پولیس کو غیر سیاسی بنانا ہے۔ آج سے تین سال قبل عمران خان نے کہا تھا کہ اگر حکمرانوں نے اپنے اثاثے ظاہر نہ کئے تو وہ سول نافرمانی تحریک چلائیں گے۔ اس وقت مرکز میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی۔ اتفاق سے اس روز وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے ملتان روڈ کی توسیع کا افتتاح کرتے ہوئے وہاں موجود لوگوں سے خطاب میں کہا تھا ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کیلئے جان دینے سے گریز نہیں کرونگا۔ حکمران قوم کا پیسہ واپس لائیں، لوٹ مار سے توبہ نہ کی تو ہر چوک تحریر سکوائر بن جائیگا۔ نااہل حکمرانوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کررکھا ہے۔ عوام ان کا محاسبہ کرینگے ۔ عوام کا ہاتھ اور حکمرانوں کا گریبان ہوگا۔ اُس وقت شہباز شریف کا اشارہ پیپلز پارٹی کی حکومت اور حکمرانوں کی طرف تھا۔ عمران خان اور شہباز شریف یکساں حکمرانوں کی کرپشن کی بات کررہے تھے۔ آج بھی عمران خان حکمرانوں کی کرپشن کی بات کرتے ہیں۔ آج حکمران صرف مسلم لیگ ن ہے۔ عمران خان کے 2011ء کے جلسے سے مسلم لیگ ن کیلئے خطرے کی گھنٹی بج گئی تھی لیکن اس نے اسے سنجیدہ نہ لیا۔ تحریک انصاف کے حامیوں کے نزدیک مسلم لیگ ن کوالیکشن جیتنے کا گُر اور فن آگیا تھا جو اس نے 2013ء کے انتخابات میں استعمال کرکے بھاری اکثریت حاصل کرلی۔
عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنوں میں لاکھوں لوگ آئے یا ہزاروں آئے، انہوں نے حکمرانوں کی نیندیں ضرور حرام کردی ہیں۔ میاں نواز شریف کہتے تھے کہ وہ پانچ ہزار لوگوں کے کہنے پر استعفیٰ کیوں دیں۔لاہور میں دیکھ لیں کتنے لوگ آئے اور کراچی میں تحریک انصاف کے جلسے میں کتنے تھے۔ اپنے مخالفین میں صرف دھرنے میں بیٹھے لوگوں ہی کو شمار نہ کریں، دھرنے والوں کو اپنے گھروں میں ٹی وی چینلز پر عمران خان اور طاہرالقادری کے خطابات سننے والوں کی بھی حمایت حاصل ہے۔ ان لوگوں کو آج کے حکمرانوں نے ہی انکی حمایت پر مائل اور قائل کیا ہے۔ عمران خان نے 2011ء کے جلسے میں بھی کرپشن کو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا تھا وہ آج بھی یہی کہتے ہیں۔ شہباز شریف نے بھی اسی دن حکمرانوں کی کرپشن کی بات کی تھی۔ اسکے بعد انہوں نے کئی مرتبہ کہا کہ وہ زرداری اور ساتھیوں سے لوٹ مار کی ایک ایک پائی واپس لائیں گے لیکن مکمل طور پر اقتدار میں آنے کے بعد وزیر اعظم نوازشریف آصف زرداری کے ڈرائیور بن گئے۔ انکو رائیونڈ بلا کر پُرتکلف کھانے کھلاتے اور سیاست میںرہنمائی لیتے ہیں۔پی پی پی حکومت کی کرپشن کس سے چھپی ہوئی ہے۔ شہبازشریف نے کہا تھا کہ حکمرانوں نے لوٹ مار سے توبہ نہ کی تو ہر چوک تحریر سکوائر بن جائیگا۔ آج واقعی کئی تحریر سکوائر بنے نظر آرہے ہیں لیکن یہ مسلم لیگ ن کے حکمرانوں کے خلاف بنے ہوئے ہیں۔ شہبازشریف نے اپنے دعوے کیمطابق پی پی پی کے کرپٹ لوگوں کا احتساب کیا ہوتا تو آج عمران خان اور طاہرالقادری اسلام آباد کے ڈی چوک کو تحریر سکوائر بنا کر نہ بیٹھے ہوتے۔ موجودہ حکمرانوں کی کرپشن کی گواہی خود ان کے گورنر چودھری سرور یہ کہہ کر دے رہے ہیں کہ وزراء بھی کرپشن میں ملوث ہیں۔عمران خان انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا کر نوازشریف کے استعفے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ نواز شریف انتخابی عمل کے ذریعے وزیر اعظم بنے،آئین کیمطابق انکو اقتدار سے الگ کرنے کا ایک طریقہ کار ہے۔ اگر وہ فیئر الیکشن کے ذریعے اقتدار میں آئے ہیں ان کو غیر آئینی طریقے سے اقتدار سے الگ نہیں کیا جاسکتا اگر وہ رگنگ کے ذریعے آئے ہیں تو ان کا وزارت عظمیٰ کے منصب پر متمکن رہنے کا کوئی جواز نہیں رہتا بیشک ان کا رگنگ میں اپنا کوئی کردار نہ ہو۔ اگر رگنگ ہوئی ہے تو ان کو اقتدار سے جانا پڑے گا اور رگنگ کرنے والوں کو آئین اور قانون کے مطابق جیل کی ہوا کھانی پڑے گی۔
حکمران اپنا اقتدار اور مبینہ دھاندلی میں ملوث بیوروکریسی نے جیل کی سلاخیں دیکھ کرانتخابی عمل کی تحقیقات سے گریز کا راستہ اپنا رکھا ہے۔ یہ رویہ حکومتی پارٹی کیلئے دن بدن خطرناک ہوتا جارہا ہے۔ عمران خان کے الزامات کے جواب پارلیمنٹ تک میں شیرو کی کہانی سنا دی جاتی ہے یا عمران خان کا نام بگاڑ کر الزام خان اور بہتان خان رکھ دیا جاتا ہے۔ خیبر پی کے حکومت کے خلاف وائٹ پیپر سے پنجاب اور مرکز کی حکومت کی کارکردگی کو کیا چار چار لگ گئے۔ پنجاب اور مرکز میں کرپشن کا خاتمہ اور میرٹ کی کارفرمائی ہوتی تو تیسرے دن دھرنے ختم ہوجاتے۔
لاہور میں عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا ’’نوازشریف مستعفی ہونے میں جتنی تاخیر کریں گے وہ اپنا پیغام دیگر شہروں میں پہنچا سکیں گے۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی آمد دراصل ان کی قوم کے بیدار کرنے کی دعا کی قبولیت ہے۔ نوازشریف نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر اچھا کیا اور اس سے ظاہر ہو گیا ہے کون کون ساتھ ہیں۔ حتیٰ کہ زرادی بھی نوازشریف کو بچانے کے لیے دبئی سے آگئے۔ دھرنوں کے بعد کیا کھویا کیا پایا کا احاطہ کرتے ہوئے عمران خان نے کہا پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک وزیرِ اعظم کے خلاف پارلیمان میں جھوٹ بولنے پر عدالت میں مقدمہ قائم ہوا۔‘‘
عمران خان کے کراچی اور لاہور کے جلسوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام مسلم لیگ ن کی کارکردگی سے مایوس ہیں تاہم مسلم لیگ ن کی حکومت کے پاس اب بھی بہت کچھ کرنے کا وقت ہے۔ نوازشریف استعفیٰ دینا ہے یا عوام کے اعتماد بحال کرنا ہے جو بھی کرنا ہے جلدی کرنا ہوگا۔ ان کے لئے ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ وقت ان کے ہاتھوں سے نکلا جارہا ہے۔

مزیدخبریں