کابل (نیٹ نیوز/ بی بی سی) افغانستان میں لمبے عرصے تک جاری انتخابی تنازعے کے بعد بالآخر نئے صدر کا فیصلہ ہو گیا ہے اب اشرف غنی اپنا کام سنبھالنے میں ذرا بھی وقت ضائع نہیں کرنا چاہیں گے۔ اب جبکہ امریکہ کی ثالثی سے افغانستان میں جاری انتخابی تعطل ختم ہوگیا ہے اور اتحادی حکومت قائم ہوگئی ہے، ایسے میں نئے صدر اشرف غنی کے سامنے سب سے بڑے چیلنجز کیا ہیں؟ بی بی سی کے مطابق اگرچہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ نے سرعام امریکہ کی ثالثی والے اتحادی معاہدے کی حمایت کی ہے تاہم عبداللہ عبداللہ کے بعض حلیفوں نے یہ واضح کر دیا ہے کہ انہیں اس پر زبردست تحفظات ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اشرف غنی کی جیت دھاندلی پر مبنی ہے۔ اس لئے صدر کی ترجیحات میں اس نئی حکومت کو متحد رکھنا اور اسے طاقتور بنانا سرفہرست ہوگا۔ حکومت کو آئندہ سال ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے قبل انتخاب کے نظام میں بھی اصلاحات لانے کی ضرورت ہے جو آسان کام نہیں، بہت سے افغانوں کا کہنا ہے کہ کمزور اتحادی معاہدہ زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہ سکتا۔ انتخاب کے نتائج میں چھ ماہ تک جاری رہنے والی غیر یقینی صورت حال نے افغانستان کی کمزور معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب کیے جو زیادہ تر بیرونی امداد پر انحصار کرتی ہے۔ افغانستان کی معیشت کو بحال کرنے کے لئے اشرف غنی کی صلاحیتوں پر شک نہیں کیا جا سکتا لیکن ان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ملک میں وسیع پیمانے پر موجود بدعنوانی ہے۔ اگرچہ اشرف غنی نے کہا ہے کہ وہ بدعنوانی کو برداشت نہیں کریں گے، تاہم یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آیا وہ سنجیدہ اصلاحات لانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔ حامد کرزئی اس معاملے میں زیادہ تر ناکام ہی رہے۔ اشرف غنی ایک ایسے وقت میں اقتدار سنبھال رہے ہیں جب عالمی افواج وہاں سے روانہ ہونے والی ہے اس لئے ان کے اقتدار سنبھالنے کا وقت بڑا نازک ہے۔ آئندہ سال سے ان کے پاس قریباً ساڑھے تین لاکھ افغان فوجی ہوں گے جن میں سے زیادہ تر کے پاس اچھا اسلحہ نہیں، وہ ان طالبان سے نبرد آزما ہوں گے جو ڈیڑھ لاکھ فوجیوں پر مشتمل طاقتور نیٹو افواج کے ساتھ لڑتے رہیں ہیں۔ جب سیاست داں انتخابی نتائج پر بحث کر رہے تھے اسی دوران طالبان نے بعض علاقوں میں اہم کامیابیاں حاصل کیں۔ اشرف غنی اس کمیشن کی سربراہی کر رہے تھے جو سکیورٹی ذمہ داریوں کی منتقلی کی نگرانی کر رہا تھا اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ افغان افواج کو سمجھتے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ آنے والے کئی برسوں کے دوران انہیں امریکی امداد کی ضرورت ہوگی، اپنے پیشرو کے برخلاف انہوں نے کہا ہے کہ وہ واشنگٹن کے ساتھ دو طرفہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کے لئے تیار ہیں جس کے بعد کم از کم چند ہزار غیرملکی فوج کی افغانستان میں موجودگی یقینی ہوگی۔ بہت سے افغانوں کو اشرف غنی سے وابستہ امیدوں پر شک ہے۔ طالبان حامد کرزئی کی طرح اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں کو ’امریکی کٹھ پتلی‘ کہتے ہیں۔ زمینی حالات بتاتے ہیں کہ طالبان بات کی بجائے لڑنے کے زیادہ قائل ہیں۔ اشرف غنی کے سامنے ان کے مستقبل کی ذمے داریوں اور اپنی اہلیہ رولا کے ممکنہ کردار کے بارے میں مشکلات ہیں۔ اشرف غنی کی اہلیہ لبنانی نژاد امریکی ہیں، دونوں کی ملاقات 1970ء کی دہائی میں طالب علمی کے دنوں میں بیروت میں ہوئی تھی۔ افغانستان کی خاتون اول نے ہمیشہ انکسار سے کام لیا ہے لیکن اب چیزیں مختلف ہو سکتی ہیں۔ رولا غنی نے اس سال اپنے شوہر کی انتخابی ریلی میں پہلی بار عوام سے خطاب کیا تھا۔ انہیں پذیرائی ملی، بعض خاتون کارکنوں کا خیال ہے کہ خاتونِ اول کا متحرک کردار ملک میں خواتین کی زندگی پر مثبت اثر ڈالے گا۔ لیکن یہ ابھی واضح نہیں کہ مردوں کے تسلط والے ایک قدامت پسند معاشرے میں ان کا کتنا نمایاں کردار ہو سکتا ہے اور کیا ان کے شوہر ایسی کوئی چیز ان کے لئے پسند کریں گے؟۔
اشرف غنی/ بی بی سی