الیکشن شفاف بنانے کیلئے ہر موقع پر رائے دی مگر اسے نہیں مانا گیا: افضل خان

Sep 30, 2014

اسلام آباد (آن لائن) الیکشن کمشن کی جانب سے الیکشن 2013 میں مقناطیسی سیاہی کے استعمال کی اہمیت کو کم کرنے اور شناختی کارڈ کو ووٹر کی بنیادی شناخت قرار دینے کے بیان نے مقناطیبی سیاہی پر خرچ ہونے والے90 ملین کے اخراجات پر کئی سوالات کو جنم دیدیا۔ سیاسی مبصرین کے مطابق الیکشن کے دوران اگر اس سیاہی کی اہمیت نہیں تھی تو اس پر خطیر قومی دولت کیوں ضائع کی گئی اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ الیکشن کمشن کے سابق ایڈیشنل سیکرٹری محمد افضل خان نے اس سلسلے میں بتایا کہ الیکشن کمشن میں کسی بھی چیز کی خریداری کے لئے سیکشن افسر سے لیکر سیکرٹری، الیکشن کمشن کے معزز ارکان اور چیف الیکشن کمشن کا کردارہوتا تھا۔ الیکشن کمشن کا کوئی بھی فیصلہ زبانی نہیں ہوتا۔ الیکشن 2013 کے دوران اگر کچھ اچھا ہوا تو اس کا کریڈٹ بھی الیکشن کمشن کو جاتا ہے اور اگر کچھ غلط ہوا ہے تو اس کی ذمہ داری بھی الیکشن کمشن پر عائد ہوتی ہے۔ میں نے الیکشن 2013 کے لئے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسروں اور ریٹرننگ افسروں کی تقرری، بیورو کریسی اور الیکشن کمیشن کے عملے سے کرانے کی رائے دی تھی، اس سلسلے میں پورے پاکستان سے 4 ہزار کے قریب اچھی شہرت کے حامل افسروں کی لسٹیں منگوائی گئی تھیں جس پر سیکرٹری الیکشن کمشن نے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر عدلیہ سے جبکہ ریٹرننگ افسر الیکشن کمیشن سے مقرر کرنے کی رائے دی مگر ہماری رائے تسلیم نہیں کی گئی، تمام ذمہ داروں کا تقرر عدلیہ سے کیا گیا۔ الیکشن کمشن کا20 سالہ تجربہ ہونے کی وجہ سے ہم نے الیکشن شفاف بنانے کے لئے ہر موقع پر اپنی رائے پیش کی مگر اسے نہ مانا گیا اسی وجہ سے مجھے ریٹائرڈ کر دیا گیا اس کے برعکس ہاں میں ہاں ملانے والے افسر اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی الیکشن کمشن میں اہم عہدوں پر براجمان ہیں۔ الیکشن کمشن، عدلیہ اور انتظامیہ میں اچھی شہرت کے حامل افسروں کی بڑی تعداد موجود ہے جو الیکشن کے نظام کو درست کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔

مزیدخبریں