وزیر اعظم پی ٹی وی پر۔۔۔!

جو وزیر اعظم پاکستان ٹیلی ویژن تک محدود ہو کر رہ جائے ،وہ جمہوری لیڈر کہلانے کا حقدار ہے؟ پاکستان ٹیلی ویژن ممتا کی ایسی کوکھ ہے جس میں ہر حکمران کی مرضی کی خبریں اور رپورٹس نشر ہوتی ہیں جبکہ قوم نجی چینلز کی عادی ہو چکی ہے۔ تیس سال سے امریکہ میں پاکستانی حکمرانوں کی آنیاں جانیاں دیکھ رہے ہیں ،حکمرانوں کے ساتھ جنج کا حجم بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں تھا، کئی حکمران امریکہ وزٹ پر آئے اور کئی گئے مگر اقوام متحدہ کے فلور پر جو انداز ذوالفقار علی بھٹو کا (پی ٹی وی) پر دیکھا،بچپن سے آج تک ذہنوں پر نقش ہے۔ باقی جو بھی انداز دیکھا معذرت خواہانہ ہی دیکھا۔ جو امریکہ آتا ہے ( سانوںاگلا سال وی کڈ لین دیو) کی ٹون لے کر آتا ہے ۔ اپنی کرسی مضبوط کرنے کے چکر میں ہوتا ہے ۔ پاکستانی میڈیا کا تعلق خواہ امریکہ کے مقامی اردو اخبارات سے ہو یا قومی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے ،پاکستانی حکمرانوں کو انہیں (فیس) کرنا چاہئے۔ اقوام متحدہ کی تمام کارروائی بشمول نیویارک کے مقامی ہوٹل میں دی جانے والی میڈیا بریفنگ کے لیئے سڑکوں پر کھجل خوار ہونے کی بجائے گھر بیٹھے پی ٹی وی پر دیکھا جا سکتا ہے۔ صحافیوں پر رحم آتا ہے جو دن کے وقت محنت مزدوری کرتے ہیں اور شام کو پاکستان سے آئے حکمرانوں اور وفود کی سرگرمیوں کی کوریج کیلئے بسوں اور ٹرینوں کے دھکے کھاتے ہیں اور وزیر اعظم کی صورت دیکھے بغیر گھروں کو لوٹ آتے ہیں۔ نجی ٹی وی چینلز کے نمائندگان وزیر اعظم کے ایک آدھ جملے کی ریکارڈنگ کے لیئے ( لنگر کی قطار میں لگے بھلے مانس کی طرح) وزیر اعظم کی لابی میں ٹہل رہے ہوتے ہیں کہ قسمت سے تبرک میں کوئی ایک آدھ جملہ عنایت ہو جائے اور چینل پرچلا دیا جائے۔ مسلم لیگ (ن) امریکہ کے صدر سے اسحاق ڈار کی توہین کرانے کے بعد میڈیا سے مزید گھبرا گئی ہے۔ یاد رہے کہ سینیٹر اسحاق ڈار جو کہ عید سے دو روز پہلے نیویارک تشریف لے آئے تھے ،نیویارک میں ان کی پارٹی کے لوگ انہیں پاکستانیوں کے گڑھ بروکلین کی معروف مسجد (مکی مسجد) میں سیاسی خطبے کے لیئے لے گئے ۔ پارٹی نے سوچا کہ عید کا دن ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے ، ڈار صاحب کی بے عزتی کرانے کا اس سے بہترین موقع شاید پھر نہ ملے اور ڈار صاحب جنہیں دل جلے (ڈالر صاحب) بھی کہتے ہیں کو بھی سوچنا چاہیے تھا کہ اگر ان کے لوگ انہیں (آبیل مجھے مار)کے ماحول میں لے ہی آئے ہیں تو وہ سیاسی خطاب کی بجائے قومی خطاب سے آغاز کرتے ۔پاکستانی کمیونٹی سے بھائی چارے کی گفتگو فرماتے مگر اسحاق ڈار نے حسب روایت اپنے لیڈر کے کارناموں کا ذکر چھیڑ دیا ،بس پھر کیا تھا وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ اور وہ سب ہو گیا جس پر مسلم لیگ (ن) کو ہم بس اتنا کہنا چاہیں گے کہ (احمق سجن سے دانا دشمن بہتر)۔مسجد میں مفت کا مجمع مل رہا تھا، کسی بڑے ہوٹل یا ہال میں پروگرام کرانا پڑے تو ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔یہ مفت کا مجمع عید نماز پڑھنے آیا تھا،سیاسی بھاشن سننے نہیں۔ مسجد میں پی ٹی آئی اور ایجنسیوں کے بندے موجود تھے ، انہیں سنہری موقع ہاتھ لگ گیا،اسحق ڈار صاحب کے ساتھ وہ ہتک آمیز سلوک کیا گیا کہ اس پر جس قدر نادم ہوا جائے کم ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے امریکہ میںجو پندرہ بیس آدمی رہ گئے ہیں ، ان میں بھی تین چار نام ہیں جو وزیر اعظم کے آگے پیچھے پھرتے دکھائی دیں گے ۔ آفرین ہے لیڈر پر جنہیں صحافیوں سے سامنا کرتے تو خوف آتا ہے مگر اپنے اطراف احمق سجن دکھائی نہیں دیتے۔ صحافی ان کے پاکستانی بھائی ہیں ،خود کش بمبار نہیں جو پریس کانفرنس سے گھبرا رہے ہیں۔ ملیحہ لودھی کو چاہیے تھا کہ وہ صحافی ہونے کا بھی حق ادا کرتے ہوئے برادری کو وزیر اعظم سے ملاقات کا موقع دیتیں۔ اقوام متحدہ کے دورے کا شیڈول نیویارک میں مقیم مستقل سفیر کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ وزیر اعظم شہر کے جس ہوٹل اور کمرے میں ٹھہرے ہیں اس کا یومیہ کرایہ 8000 جبکہ بھارتی وزیر اعظم مودی کے کمرے کا یومیہ کرایہ1100
ڈالر ہے۔ وزیر اعظم کے قریبی ذرائع اور ترجمان خوشامد اور زیارت میں مصروف ہیں لہذا ہمارے ذرائع جو بتاتے ہیں قارئین سے شیئر کر رہے ہیں ۔وزیر اعظم کے وفد میں شامل صحافی مثبت رپورٹنگ پر مجبور ہیں مگر امریکہ میں مقیم صحافی ذرا مختلف مزاج رکھتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم کوتینوں دوروں کے دوران امریکی پاکستانی صحافیوں سے ملاقات سے ڈرا دیا گیا ہے۔ پہلے اپنے گھر والوں کو مطمئن کریں پھر غیروں کے منہ لگیں ۔ واشنگٹن اور نیویارک سے اکٹھے ہونے والے صحافیوں کو پاکستان مشن کی عمارت میں مدعو کیا جائے اور وقت کی قلت کے سبب وزیر اعظم کو لکھے ہوئے سوالات پیش کر دیئے جائیں ، وزیر اعظم خطاب نہ کریں صرف سوالات کے جوابات ارشاد فرما دیں۔ صحافی بھی عزت افزائی اور مصافحہ کا حق رکھتے ہیں۔ پردیس میں مقیم پاکستانی صحافی دن بھر محنت مزدوری سے اپنے خاندان کا پیٹ پالتے ہیں اور باقی وقت حکومت کی کوریج میں گزار دیتے ہیں، یہ بھی انسان ہیں ،تنقید کریں یا تعریف ، محبت کے حقدار ہیں۔لیڈر شیر ہے تو شیر بن کر دکھائے۔ مسلم لیگ (ن) کے ورکروں کی خدمت قیادت کے ساتھ فوٹو بنوانے تک محدود ہے جبکہ صحافیوں کا دل راضی ہوتو یہ جھلک ان کی رپورٹس سے بھی عیاں ہوتی ہے۔ خاتون اول بیگم کلثوم نواز اچھی خاتون نے بھی اپنے ہمراہ ایک ناہید خان رکھی ہوئی ہے جو ان کا شیڈول بناتی ہیں۔ خاتون اول مسلم نون کی ایک خاتون وزیر کی رہائش گاہ پر مدعو تھیں۔ ان محترمہ نے یہ کاروائی ڈال کر اپنے نمبر بنا لیئے ۔الا ما شا ء اللہ یہ لوگ اپنی ذات سے آگے سوچنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے ہیں ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف جن کی نظر آئندہ الیکشن پر ہے ،انہیں اپنے بڑے بھائی صاحب کو مشورہ دینا چاہیے کہ وہ پاکستان کے وزیر اعظم ہیں ۔ حلف لینے کے بعد قوم سے پہلے خطاب میں جناب نے فرمایا تھا کہ وزیر اعظم قوم کا باپ ہوتا ہے ،عوام اولاد کی طرح ہوتی ہے، یہ کیسا باپ ہے جو اپنی کمیونٹی اور صحافیوں کو اپنی زیارت سے محروم رکھتا ہے ؟ ہماری تمام ہمدردیاں صحافی برادری کے ساتھ ہیں ۔بیچارے ڈیوٹی کر رہے ہیں ورنہ وزیر اعظم کی زیارت پی ٹی وی پر ہو جاتی ہے۔ پی ٹی وی پر مثبت اور حوصلہ افزا خبریں دیکھنے کو ملتی ہیں۔

طیبہ ضیاءچیمہ ....(نیویارک)

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...