آپ کے آنے سے پہلے میری طرح کے عوام علماءکےساتھ بات کرنے کے مجاز نہیں تھے، حضور نے ذاتیات کی ساری سرحدیں توڑ کر ہموار کر دیں۔ ایسی تعلیمات کی وجہ سے حضرت عمرؓ کی تلوار حق کی خاطر اور تحفظ اسلام کیلئے بے نیام رہتی، قیصر و کسریٰ آپ کے نام سے لرز اٹھتے، ہر شخص کو حق حاصل تھا کہ وہ ان پر تنقید کر سکتا تھا۔ اپنے دروازے پر کبھی دربان نہیں بٹھایا۔
قرآن پاک کی کئی آیات میں آپکی رائے کی تصدیق رب نے کی وہ قاضی مدینہ کی عدالت میں مدعا علیہ کی حیثیت سے بھی گئے۔ یہ بھی آپ کا مشہور ترین فرمان ہے کہ دجلہ کے کنارے اگر کتا بھی بھوک سے مر گیا تو قیامت کے دن اللہ مجھ سے باز پرس کریگا۔ حضرت عمرؓ جیسے جلیل القدر، رعب اور دبدبے والے شخص کو ایک گنوار اور جاہل بدو بھی پکڑ کر سوال کر سکتا تھا۔
میں سمجھتا ہوں کہ ان ساری باتوں کا علم مفتی اعظم عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ جو 1990ءمیں اپنے منصب پر فائز ہوئے تھے تب بھی بھگدڑ میں چودہ سو حاجی شہید ہوئے تھے اور پینتیس سال سے مسلسل خطبہ حج کا اعزاز حاصل کئے ہوئے ہیں۔ میں جب پڑھتا تھا، تو طالب علمی کے اس وقت میں نے حج کی سعادت حاصل کی تھی تب بھی میں نے ان کا خطبہ سنا تھا۔
مفتی اعظم کو پیدائش کے وقت بھی کم نظر آتا تھا غالباً چھ سال کی عمر میں وہ مکمل نابینا ہو گئے۔ حضرت عمرؓ کے بارے میں پڑھ کر مجھ میں بھی بدو کی طرح سوال کرنے کی جرا¿ت پیدا ہوئی۔ کیونکہ حق کہنا، حقائق جاننا ہر مسلمان کا حق ہے۔ سورہ شوریٰ آیت 38میں ارشاد ربانی ہے ”اور ان کیلئے جنہوں نے مان لیا، اپنے رب کا حکم اور قائم کی نماز اور انکے معاملات باہم مشورے سے چلتے ہیں“ حضور کی زبان مبارک سے ہر بات اللہ کے اِذن سے ادا ہوتی ہیں مگر اسکے باوجود آپ اصحاب سے مشورہ کیا کرتے تھے۔
مفتی اعظم یہ سب جانتے ہونگے، یہ بھی انکے علم میں ہو گا، حضور کے زمانے میں حاجی مہمان ہوا کرتے اور انکی رہائش اور خوراک کا بندوبست مقامی لوگ کیا کرتے تھے۔ کنگ عبدالعزیز کے زمانے تک صورتحال ملتی جلتی تھی اور حج کے زمانے میں زائرین کو ذریعہ آمدن بنا لینا، اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی ہیں۔
پاکستان کے حاجی نذیر صاحب جن کی بہت بڑی کنسٹرکشن کمپنی تھی اور سعودی عرب کی سڑکوں کی تعمیر کے تقریباً سارے ٹھیکے انکے پاس تھے۔ انکی وجہ شہرت یہ تھی کہ وہاں خصوصاً پاکستان کے حجاج کرام کو اپنے بڑے بڑے مہمان خانوں میں نہ صرف مفت ٹھہراتے بلکہ انکی ٹرانسپورٹ کا بھی انتظام کرتے۔ اسی طرح مختلف ملکوں کے مخیر حضرات اور حکومتوں نے بھی ایسے انتظامات کر رکھے تھے مگر رفتہ رفتہ حکومت کی بدلتی پالیسی اور ڈھیل کی وجہ سے معذور افراد کےلئے وہیل چیئرز بھی منہ بولی قیمت پر ملنا شروع ہو گئی ہیں۔
عام حالات میں ہوٹلوں کے کرائے جو ہزار روپے ہوتے ہیںدو گنے تگنے ہی نہیں چوگنے بلکہ انمول بنا دیئے جاتے ہیں، حاجیوں کے ساتھ ہونیوالی ان زیادتیوں کے بارے میں مفتی صاحب کو یہ فتویٰ دینا چاہیے کہ یہ بھی منافع جو زائرین سے حاصل ہوتا ہے۔ وہ حرام ہے حج کے دوران تجارت توجائز ہے مگر یہ تجارت نہیں بلکہ مجبوریاں ہیں، جن سے مقامی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں، حالیہ رَمی اور حرم شریف کے واقعات اگر حضرت عمرؓ کے دور میں ہوتے تو ان کا ردعمل کیا ہوتا؟ کرین کے حادثے کی وجہ طوفان، بارش اور بجلی کا گرنا تھا اور بارش دوران حج اکثر مقامات، منٰی، مزدلفہ اور عرفات میں بھی ہوتی رہی، مفتی اعظم کا فرمان ہے کہ حاجیوں کی اموات حکومتی غلطی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس میں اللہ کی مرضی شامل ہے انکے ملک میں تو امام صاحبان کو ایک لفظ بھی فی البدیہہ بولنے کی اجازت نہیں ہوتی بلکہ خطبہ لکھا ہوا ملتا ہے۔ یہ تو اللہ کی مرضی ہے کہ امام نابینا ہیں۔
مگر میں نہیں سمجھتا کہ انکا کوئی بھی خطبہ مشاورت اور تعمیل فرمان کے بغیر ہوتا ہے۔ اگر حضرت محمدﷺ نے عام آدمی کو علماءسے بات کرنے کی اجازت دے دی تھی تو اب ہم یہ سوال کیوں نہیں کر سکتے کہ سعودی حکومت کو صرف حج کے دوران زائرین سے چوراسی کروڑ ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے جس میں ہر سال تین فیصد اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ مدتوں سے کھربوں ریال کمائی کرنےوالے مزید کمائی کے حصول کیلئے توسیع پسندانہ عزائم لئے ہوئے ہر سال گنجائش سے زیادہ حجاج کرام بلوا کر خانہ کعبہ کے طواف کی محدود جگہ میں معمر افراد، واضح رہے کہ حجاج زیادہ تر بوڑھے ہوتے ہیں، ان کو آزمائش میں ڈال کر ثواب کو عذاب میں بدل دیتے ہیں۔
مسجد نبوی اور حرم شریف میں صفائی کے انتظامات انتہائی قابل تعریف ہیں مگر قرآن پاک کو تکیہ بنا کر اور عین کعبہ کے سامنے پاﺅں پھیلا کر سونے اور حرمین شریفین میں موبائل فون کے استعمال میں بھی توہین کا پہلو سامنے آتا ہے۔
حنبلی فرقے والے اماموں اور مفتی اعظم اور مفتیان وقت کو بھی اس معاملے میں فتاویٰ جاری کرنے چاہئیں، اگر کوئی شخص خود کشی کر لے تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ کی مرضی سے درختوں کا کوئی پتہ بھی نہیں ہل سکتا لہٰذا خودکشی میں اللہ کی مرضی شامل تھی، امام حنبل ؒنے تو موت قبول کر لی تھی مگر اپنی مرضی اور منشا کےخلاف کوئی حکم نہیں مانا تھا، ضرورت اس امر کی ہے اتنے حاجی بلوانے چاہئیں جن کا انتظام حکومت باطریق احسن ادا کر سکے کیونکہ گلوبل ویلج میں آج کل دانا و بینا دانشور اور عالم چھائے ہوئے ہیں، خواتین کو تجارت، ملازمت، جہاز اڑانے، ڈرائیونگ کرنے، ملک سے باہر کو ایجوکیشن میں داخلے لینے، سینما ہال بنانے کی اجازت دینے میں کس کی مرضی شامل تھی، نابینا مفتی اعظم زمینی حقائق کو بدقسمتی سے اپنی آنکھوں سے خود نہیں دیکھ سکتے۔
لہٰذا فتوے اور فیصلے کی حکمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے محض حق وسچ کی وکالت کریں، متنازعہ بننے سے دانائی و بینائی پہ حرف آنا ہمارے لئے ناقابل برداشت ہے، کھربوں روپے ہر سال کمانے والے خدام حرمین شریفین کو کپڑوں کے خیمے کی بجائے پختہ رہائش گاہیں تعمیر کرنی چاہئیں ، بھگڈر تب ہوئی جب مخالف سمت سے حجاج آئے ان کو روکنا کس کا کام تھا، حضرت عمرؓ نے فرمایا تھا اے کعبہ تری عزت وحرمت سے مسلمان کی حرمت زیادہ ہے، ہزاروں شہداءاور لاپتہ خواتین کے بارے میں کیا فتویٰ ہے؟