ابو سعدیہ سید جاوید علی شاہ امامیشہیدؒالمعروف امام صاحبؒ “

”فاتح سیالکوٹ“ شہنشاہِ ولائیت،سلطان الاولیائ، سرتاج الاصفیاءحضرت سید امام علی الحق شہیدؒالمعروف امام صاحبؒ “
ابو سعدیہ سید جاوید علی شاہ امامی(سجادہ نشین)
برصغیر پاک و ہند میںکفر و شرک کے خاتمہ اور دینِ اسلام کی اشاعت و ترویج کے لئے اولیاءکرام،بزرگانِ دین اور مشائخ عظام کا مثالی کردار رہا ہے۔سرتاج الاصفیاءحضرت سید امام علی الحق شہید المعروف امام صاحب کا شمار بھی ان برگزیدہ ہستیوں میں ہوتا ہے جن کا شجرہ نسب دامادِ رسول حضرت علی ؓسے جا ملتا ہے۔آپ757ھ کے دوران دینِ اسلام کی اشاعت و تبلیغ کے سلسلہ میں مدینہ منورہ سعودی عرب سے برصغیر پاک و ہند میں تشریف لائے اور حاکمِ وقت فیروز شاہ تغلق کے ہاں دہلی میں شاہی مہمان کے طور پرقیام کیا۔اسی اثناءمیں راجہ”سل“نے ”سل کوٹ“ (موجودہ نام سیالکوٹ)میں ایک عظیم الشان قلعہ کی تعمیرشروع کروائی جس کی شمالی دیوار رات کو تعمیر کی جاتی تو اگلی صبح خود بخود مسمار ہو جاتی۔ بالآخر راجہ سل نے تنگ آ کر ہندو¿ں پنڈتوں اور جوتشیوں کو اپنے دربار میں مدعو کر کے ان سے متذکرہ قلعہ کی دیوار کے با ر بار مسمار ہونے کی وجہ دریافت کی۔کافی سوچ بچار کے بعد بتایا گیا کہ اگر اس دیوار کی بنیادوں میںکسی مسلمان کا خون بہا دیا جائے تو یہ دیوار کبھی مسمار نہیں ہو گی۔چناچہ راجہ سل کے خصوصی حکم پرمسلمان کی تلاش شروع کر دی گئی۔کافی تگ و دو کے بعد ”مراد“ نامی ایک نوجوان مسلمان کو تاریخی نالہ”ایک“ کے کنارے وضو کرتے ہوئے پایا گیااور اس مقصد کیلئے اس کوراجہ سل کے دربار میں پیش کر دیا گیا۔مراد کی والدہ مائی راستی صاحبہ کی منت سماجت کے باوجود اس کی ایک انگلی شہید کر کے قلعہ کی شمالی دیوار کی بنیادوں میں نچھاور کر دی گئی۔قدرتِ خداوندی سے قلعہ کی دیوار تھم گئی جس سے راجہ سل اور اس کے ساتھی بے حد متاثر ہوئے۔ ”راجہ“ نے سوچا کہ جس شخص کی انگلی کے خون میںاس قدر تاثیر ہے تو اس کے ”سر“ کے خون میں کیا قوت ہوگی؟چناچہ متفقہ فیصلہ کے بعد مراد نامی مسلمان کو شہید کر کے اس کا سر زیرِ تعمیر قلعہ سیالکوٹ کی شمالی دیوار میں دفن کر دیا گیا اور یوں متعلقہ دیوار اپنی جگہ برقرار رہی اور بالآخر قلعہ کی تعمیر مکمل ہو گئی ۔ بعد میںمراد علی کو لوگوں میں شہید اول سیالکوٹ کہا جانے لگا اور ان کا مزارِ اقدس قلعہ سیالکوٹ کے شمال میںآج بھی مرجع خلائق ہے۔
مائی راستی صاحبہ اپنے لختِ جگر کے قتل ناحق کا بدلہ لینے کے لئے اپنی دکھ بھری داستان لیکر دہلی میں فیروز شاہ تغلق کے دربار میں حاضر ہوئیں ۔ مائی راستی صاحبہ کی داستان خونچکاںسن کر فیروز شاہ تغلق بے حد متاثر ہواوراس نے بعض مصروفیات کی بناپر بذات خود راجہ سل کے خلاف لشکر کشی کرنے کی بجائے مبلغ اسلام حضرت سید امام علی الحق شہیدالمعروف امام صاحب سے مائی راستی کی داد رسی کی درخواست کی۔آپ نے فیروز شاہ تغلق کی درخواست بخوشی قبول کرتے ہوئے راجہ سل کے خلاف جہاد کرنے کی خاطر فوراًایک مختصر سا لشکر تیار کیااور سل کوٹ کی طرف پیش قدمی شروع کر دی ۔راستے میں جالندھر کے مقام پر حضرت سید امام علی الحق شہید کے برادر حضرت سید امام ناصر اچانک انتقال کر گئے اور آپ کو وہیں دفن کر کے حضرت امام صاحب نے سل کوٹ کی جانب پیشقدمی جاری رکھی ۔لشکر امام صاحب جب سل کوٹ کی حدود میں داخل ہوا تو سب سے پہلے پسرور کے مقام پر لشکرِ کفار کے ساتھ آپ کا ٹکراو¿ ہوا۔اس مقام پر آپ کے چھوٹے بھائی حضرت امام میراں برخوردار نے لا تعداد کفار کو واصلِ جہنم کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرمایاتاہم لشکرِامام اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہا۔ ایمن آباد روڈ پر راجہ سل کے لشکر کے ساتھ خونریز معرکہ آرائی میں حضرت سید امام علی الحق شہید کے ایک اور بھائی امام غالب نے بے مثال جرا¿ت وجواں مردی کے جوہر دکھاتے ہوئے راہِ خداوندی میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔آپ کا مزارِ اقدس ایمن آباد روڈ پر ایک ٹیلے پر واقع ہے ۔ آخر کار لشکرِ امام پیش قدمی کرتے ہوئے شہر”سل کوٹ“میں داخل ہوگیااور راجہ سل کی فوج پسپا ہو کر قلعہ میں محصور ہوگئی۔عصر کے وقت حضرت سید امام علی الحق شہیدؒ نے لشکر میں شامل اپنے بھانجے سید سُرخ سے فرمایا کہ” آج نمازِ مغرب انشاءاللہ ہرحال میں قلعہ کے اندر ادا کی جائے گی۔سید سُرخ نے اپنی خداد اد قوت ِ ایمانی کے ذریعے قلعہ سیالکوٹ کے دیو ہیکل دروازے کو ٹکر مار کر توڑ دیا۔لشکرِ اسلام ” اللہ اکبر“ کی فلک بوس صدائیں بلند کرتے ہوئے قلعہ کے اندر داخل ہوگیااور فتح و کامرانی کے جھنڈے گاڑدیئے۔ اس معرکہ میںراجہ سل کو عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑااور یوں اس کفرستان کے درودیوار کلمئہ توحید کی صداو¿ں سے گونج اٹھے ۔
فاتح حضرت سید امام علی الحق شہیدنے سل کوٹ کے ایک ٹیلے پر ڈیرہ جما کر اسلام کی دعوت و تبلیغ کا سلسلہ شروع کر دیاجس کے نتیجہ میں تھوڑے ہی عرصہ میں لوگ حلقہ بگوشِ اسلام ہو گئے اور دور دور تک اسلام کا بول بالا ہو گیا ۔ راجہ سل کے عزیز وں اور حواریوں کو اپنی شکست کا بیحد صدمہ تھا اور وہ ہمیشہ انتقام کی کھوج میں رہتے تھے ۔ حضرت سید امام علی الحق شہیدٹیلے پر رات بھر عبادت میں مصروف رہتے ۔ چنانچہ ایک روز راجہ سل کے سالے ”بہمن“ نے حضرت سید امام علی الحق شہید کو حالتِ نماز میں اکیلا پا کر دورانِ سجدہ شہید کر دیا۔ جس ٹیلے پر آپ نے جامِ شہادت نوش فرمایا وہیں آپ کی تدفین کر دی گئی اوربعدازاں آپ کا مزارِ اقدس تعمیر ہو جانے پر آج تک یہ مقام ہر خاص و عام کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔اپنی بناوٹ اور ڈیزائن کے لحاظ سے حضرت سیدامام علی الحق شہیدؒکا دربار عالیشان پاکستان بھر میں اپنی مثال آپ ہے۔مزارِ اقدس کا خوبصورت سبز گنبد اور چاروں کونوں میں واقع مینار ے دُور سے دیکھتے ہی روح و ایمان تازہ ہو جاتا ہے۔آپؒ کے مزارِ اقدس کی بالائی منزل پر قبلہ کی جانب ایک چلہ گاہ ہے جہاں لا تعداد بندگانِ خدا چلہ کشی کر کے فیضِ امامؒ سے فیض یاب ہوئے۔مخلوقِ خداوندی قیامت تک آپ کے آستانے سے فیض یاب ہوتی رہے گی ۔حضرت سید امام علی الحق شہیدؒ کے مزارِ اقدس کے احاطے میںآپؒ کے لشکر کے دیگر بے شمار شہدائے اسلام کے مزارات بھی موجود ہیںجنہوں نے اعلائے کلمةالحق کی خاطر جامِ شہادت نوش فرمایا۔حضرت سید امام علی الحق شہیدؒسے ملحقہ بستی محلہ حضرت امام صاحبؒ میں متعدد گھروں میںلشکرِ امامؒ کے متعدد شہداءکے مسکن ہیں ۔قبرستان امام صاحب میںمغربی جانب شاعر مشرق حضرت علامہ اقبالؒکے والدین مرحومین اورہمشیرہ کی آخری آرام گاہیں واقع ہیں۔ اس جگہ نگہداشت کا کوئی بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے آوارہ جانور اور مویشی آزادانہ گھومتے پھرتے ہیںاور ان قبروں کا تقدس مجروح ہوتا ہے۔
9محرم الحرام کو حضرت سید امام علی الحق شہیدکا سالانہ عرس اور ذکرِ شہدائے کربلا کا سالانہ اجتماع منعقد ہوتا ہے جس میں ملک بھر سے زائرین اورعقیدت مندان والہانہ انداز میں شرکت کرتے ہیں۔حضرت سید امام علی الحق شہیدکے آستانہ عالیہ سے ملحقہ گراو¿نڈ امام صاحب میں ہر جمعرات کو پنجاب کا سب سے بڑا اور تا ریخی میلہ لگتا ہے جس میں پورے پنجاب سے زائرین شرکت کرتے ہیں۔اس میلہ میں نہ صرف سیالکوٹ بلکہ وزیرآباد،گوجرانوالہ، لاہور، فیصل آباد، گرات، جہلم اور راولپنڈی سے بھی کاروباری لو گ کپڑا، لنڈے کا سامان، کراکری، کاسمیٹکس،پھل سبزیاں،جوتے، مٹی کے برتن ،لکٹی کی مصنوعات ، مصالحہ جات اور دیگر متعدد گھریلو استعمال کی اشیاءکی خرید و فروخت کے لئے لاتے ہیں۔تاہم یہ امر قابلِ افسوس ہے کہ میلہ گراو¿نڈ میںصفائی اور سیکورٹی کا کوئی بندو بست نہیں اور یوں کسی وقت بھی کوئی ناخوشگوار واقع رونما ہونے کاخدشہ رہتا ہے حضرت امام صاحب ؒ کا سالانہ عرس مبارک ہر سال7,6,5اور 8 محرم الحرام کو انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ زیرِ سر پرستی وزیر آزاد حکومت جموں و کشمیر صاحبزادہ محمدحامد رضائ( جانشین شیخ الحدیث علامہ حافظ محمد عالم صاحبؒ) اور محبوب عالم بٹ (چیئر مین امور مذہبیہ کمیٹی دربار عالیہ) منایا جاتا ہے ۔عرس کا آغاز 5 محرم الحرام کو بعد از نمازِ عشاءغسل پاک کی سالانہ رسم سے ہوتا ہے۔دوسرے روز بعداز نمازِ مغرب چادر پوشی کی سالانہ تقریب منعقد ہوتی ہے جبکہ اسی روز بعداز نمازِ عشاءامام صاحب گراو¿نڈ میں محفل سماع کاا نعقاد کیا جاتا ہے۔تیسرے روز اور چوتھے روزبعداز نمازِ عشاءمیدان حضرت امام صاحب ہی میں منعقد ہونے والے خصوصی اجتماعات میں ملک بھر سے ممتاز علماءو مشائخ عزام تشریف لا کر مختلف مو ضوعات اور بالخصوص واقعہ کربلا ، فلسفہ شہادت اور حضرت امام صاحب کے تاریخ ساز کارناموں پر روشنی ڈالتے ہیں۔عرس کے موقع پر مزارِ اقدس ، ملحقہ جامعہ مسجد اور گرد و نواح کے علاقہ میںشاندار چراغاں کر کے پورے علاقہ کو بقعہ نور بنایا جاتا ہے۔ زائرین کی تعداد میں غیر معمولی اضافے کے رجحان کی وجہ سے ایک عرصہ سے درگاہ اور ملحقہ جامعہ مسجد کی توسیع شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے ۔جبکہ درگاہ کے گرد ونواح میں قانون شکن عناصر کی سرکوبی کے لئے حکومت کی جانب سے فوری اور مو¿ثر اقدامات اشد ضروری ہےںتاکہ درگاہ کا تقدس مجروح نہ ہونے پائے۔بیرونی اضلاع کے زائرین کے لئے لنگر خانے اور آرام گاہ کا قیام ،فری ہسپتال کا اجرائ،اسلامک لائبریری اور ملحقہ جامعہ مسجد میں جدید طرز کی دینی درسگاہ کا قیام بھی عرصہ دراز سے محسوس کیا جا رہا ہے۔ اگر ان سہولتوں کا اجراءہو جاتا ہے تواس سے محکمہ اوقاف کی نیک نامی اور زائرین کے دلی جذبات کی ترجمانی ہو گی ۔
فنش،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...