خالد یزدانی
بنی ہے قہقہہ دیوار گویا شاعری اپنی
عطا محمد کا سن پیدائش1898ءہے وہ امرتسر میں پیدا ہوئے ان میں ایسی خداداد صلاحیت تھی کہ جب وہ برٹش آرمی میں بھرتی ہوئے تو ادب و صحافت کی دنیا میں بھی قدم رکھا اور ان کے قلم سے نظم و نثر کی صورت جو شگوفے پھوٹے اس نے برصغیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا کہ ان کا رنگ ظرافت جداگانہ تھا۔ ان کی تحریریں زمیندار، احسان اور شہباز میں شائع ہوتی لیکن قیام پاکستان کے بعد وہ آغا شورش کاشمیری کے ہفتہ وار چٹان سے منسلک ہوگئے اور شورش کاشمیری نے لاہور کے نو رتن مین جن ادیبوں اوع شاعروں کا ذکر کیا ہے ان میں ایک حاجی لق لق تھے۔ عطامحمد نے ادب و صحافت کی دنیا میں حاجی لق لق تھے۔ قلمی نام ”حاجی لق لق“ سے جو شہرت حاصل کی اس سے دنیائے ادب آج تک واقف ہے اور ان کی تعریف کرنا گویا سورج کو چراغ دکھاتا ہے ان کی مقبولیت کا سب سے بڑا راز یہ ہے کہ وہ ظرافت کے پردے میں اخلاق آموز سبق دے جاتے ہیں اور انداز بیان اتنا دلچسپ اور دلپذیر ہوتا ہے کہ بار بار پڑھ کر بھی طبیعت سیر نہیں ہوتی۔ ظرافت نگاری کا ایک نیا طرز آپ نے ایجاد کیا ہے جسکو پڑھ اور سن کر ہر شخص داد دینے پر مجبور ہوتا ہے۔
اپنے قلمی نام کے حوالے سے وہ لکھتے ہیںبعض حضرات خطوط کے ذریعے یا زبانی میرے قلمی نام ”حاجی لق لق“ کی وجہ پوچھا کرتے ہیں اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اپنے اسم گرامی یا یوں کہئے کہ اسم طیوری کی تشریح کردوں۔ میں قریباً پانچ سال تک عراق میںرہا ہوں وہاں لم ڈھینگ قسم کا ایک پرندہ ہوتا ہے جسے حاجی لق لق کہتے ہیں۔ حاجی اس لئے کہ ایک خاص موسم میں یہ ہجرت کرکے کہیں دوسرے ملک چلا جاتا اور کچھ عرصہ کے بعد پھر واپس آجاتا ہے۔عراق والوں کا خیال ہے کہ یہ حج کرنے کے لئے جایا کرتا ہے، میری ٹانگیں ذرا لمبی ہیں اور حاجی لق لق پرندے کی ٹانگیں بھی طویل ہوتی ہے اس لئے میرے عرب دوست اس رعائت سے حاجی لق لق کہا کرتے تھے جب میں نے واپس ہندوستان آکر دنیائے صحافت میں قدم رکھا تو مجھے ظریفانہ رنگ میں لکھنے کا خیال بھی آیا اس کے ساتھ یہ فکر ہوئی کہ اس رنگ میں لکھنے کے لئے کوئی قلمی نام بھی ہونا چاہئے۔ مجھے فوراً اس نام کا خیال آیا جس سے میرے عرب دوست مجھے یاد کیا کرتے تھے یعنی ”حاجی لق لق“ ۔
حاجی لق لق کا پہلا مجموعہ کلام ”تعلقہ“ کے نام سے شائع ہوا تھاجسے بے حد سراہا گیا تھا بعد ازاں ماڈرن غزلوں پر ان کا کلام”منقار تعلق“ کے نام سے شائع ہوا جس کے بارے میں انہوں نے لکھا تھا ”منقار تعلق“ میں ماڈرن غزلوں کی تعداد زیادہ ہے اور میں انہیں ماڈرن اس لئے کہتا ہوں کہ اس میں عہد حاضر کی اصطلاحات اور جدید لوازم کو بنایا گیا ہے۔ غزلیں اس لئے کہ ان میں پرانا رنگ تغزل موجود ہے۔ ماڈرن غزل لکھنا سب سے پہلے میں نے شروع کیا اب میرے کئی نقال پیدا ہوگئے ہیں لیکن وہ اس نقطہ کو نہیں سمجھ سکے کہ شعر کو مزاجی بنانے کی کوشش میں اس کا رنگ تغزل ضائع نہیں کردینا چاہیے۔
میرے یہ محترم دوست شعر میں ظرافت پیدا کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں لیکن ان کا شاذونادر ہی کوئی شعر ایسا ہوتا ہے جسے غزل کا شعر کہا جاسکے۔میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ شعر کا پہلا مصرع بالکل سنجیدہ غزل کا معلوم ہو اور دوسرے مصرع میں ہلکی ظرافت کا رنگ پیدا ہوجائے مثلاً
میرے دل کی لگی نہیں بجھتی
برف میں دل لگائے دیکھ لیا
اس غزل کا ایک اور شعر ہے:
میرے دل کا پتہ نہیں چلتا
ایکس رے بھی کراکے دیکھ لیا
حاجی لق لق 28ستمبر1961ءکو اس دنیاسے رخصت ہوگئے مگر ان کی تحریریں آج بھی پڑھی جاتی ہیں۔آخر میں حاجی لق لق کے چند اشعار نذر قارئین ہیں۔
تیرا مریض ہوں میں ڈاکٹر کا گھر نہ بتا
یہ درد عشق ہے ظالم کوئی بخار نہیں
........
سُنیں گے آپ جو لق لق کی بات خوش ہوں گے
جناب من وہ مڈل پاس ہے گنوار نہیں
........
اب ہمیںٹھنڈی سڑک پر کیا خطر
رکھ چلے ہیں دل کو گاڑی میں ہم
........
جہاں کو قیس و لیلیٰ کا فسانہ یاد آتا ہے
مگر ہم کو تو کالج کا زمانہ یاد آتا ہے
........
قیامت ڈھائی جاتی ہے مجسّم ہوتی جاتی ہے
نگاہِ یار دنیا کے لئے بم ہوتی جاتی ہے
........
ہمارے شعر جو سنتا ہے ہنس دیتا ہے وہ تعلق
بنی ہے قہقہہ دیوار گویا شاعری اپنی
........
بڑھا کر بال لڑکا آج لڑکی بنتا جاتا ہے
کٹا کر زلف لڑکی آج لڑکا ہوتی جاتی ہے