بھارتی انتہا پسند وقتاً فوقتاً پاکستانی فنکاروں کو اپنے تئیں ”بے عزت“ کرنے کی سعی کرتے ہیں لیکن ہمارے فنکار ان کا یہ رویہ ہنسی میں اڑا دیتے ہیں۔ گلوکار غلام علی کے بارے میں تو آئے روز خبریں آ رہی ہوتی ہیں کہ ہندو انتہا پسندوں نے اُن کا سٹیج الٹ دیا یا یہ کہ اُنہیں پروگرام کرنے سے منع کر دیا۔ لیکن جناب غلام علی کے کا ن پر بھی جوں نہیں رینگتی۔ وہ تھوڑا سا برا مناتے ہیں لیکن دوسرے ہی لمحے کسی اور جگہ کا کنٹریکٹ سائن کر لیتے ہیں۔ اور جس طرح وہ ’چپکے چپکے ‘غزل گاتے ہیں اسی طرح چپکے چپکے بلکہ ”چھپ کے چھپ کے“ پروگرام کرتے ہیں لیکن بھارتی انتہاپسندوں کی نظریں بھی بہت تیز ہیں وہ جہاں غلام علی جاتے ہیں وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ گویا غلام علی پورے پروٹوکول کے ساتھ بھارت میں فن کی خدمت کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں تو موسیقی کو حرام سمجھنے والا ایک طبقہ بھی موجود ہے۔ لیکن بھارت میں تو ہندو انتہاپسندوں نے زندگی حرام کر کے رکھ دی ہے۔ اب فیصلہ جناب غلام علی کا ہے کہ انہوں نے بھارت ہی میں پروگرام کرنے ہیں یا پھر پاکستان واپس آنا ہے۔ ہندو انتہا پسند تو بہرحال اپنا فیصلہ دے چکے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل راحت فتح علی خان بھارت میں متعدد پروگرام کرنے کے بعد واپس آ رہے تھے تو بھارتی ایئرپورٹ پر اُنہیں ان کی کمائی سمیت بھارتی کسٹم حکام نے روک لیا تھا کہ آپ اتنے پیسے ساتھ لے کر نہیں جا سکتے یاد رہے کہ اُنہیں نہ صرف روکا گیا بلکہ اس کی موثر میڈیا کوریج بھی کروائی گئی۔سابق پاکستانی گلوکار عدنان سمیع خان نے شائد اسی بک بک سے تنگ آ کر بھارت کی شہریت ہی لے لی ہے۔ اب وہ پاکستانی نہیں بھارتی گلوکار ہے۔ لیکن بھارت میں اس کی عزت بھی اتنی ہی ہے جتنی کسی مسلمان کی ہو سکتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل خبریں تھیں کہ بھارت کے مسلمان فنکاروں کو بمبئی اور دہلی کے پوش علاقوں میں گھر خریدنے پر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہرطور پاکستان سے کئی فنکار بھارت جاتے رہتے ہیں کچھ تو خیر اس پائے کے فنکار ہیں کہ وہ بالی ووڈ تو کیا شائد، ہالی ووڈ میں بھی کام کریں تو اچھاکریں۔ لیکن بہت سے واجبی سے فنکار بھی ہیں جو وہاں اداکاری کا ٹھپہ لگوانے جاتے ہیں۔ ایسے فنکاروں کو ”بے ضرر“ قسم کے رول دے کر ٹرخا دیا جاتاہے۔ اب شائد بہت عرصے کے بعد فواد خان، علی ظفر، مائرہ خان جیسے فنکاروں کو اچھے رول مل رہے ہیں لیکن وہ بھارتی انتہا پسندوں کو پسند نہیں آ رہے۔ اب ان فنکاروں کو بھی اپنے اپنے رول کی بجائے اپنی اور اپنے ملک کی عزت کو فوقیت دینا ہو گی۔ اُن کا یہاں بھی ایک مقام ہے وہ اپنے ملک میں آ کرکام کریں اور عزت کمائیں۔ ہندو انتہا پسند رہنماﺅں کی دیکھا دیکھی بھارتی گلوکار ابھجیت سمیت بعض دیگر فنکاروں نے بھی وہی راگنی آلاپنا شروع کر دی ہے کہ پاکستانی فنکار بھارت سے چلے جائیں۔ جبکہ دوسری جانب ہمارے ہاں کے لوگ برف میں لگے ہوئے ہیں وہ دھڑا دھڑ بھارتی فلموں کو پاکستان میں نمائش کے پرمٹ دیتے چلے جا رہے ہیں۔ ہدایتکار سید نور بھی اکثر بھارتی فلموں کی مخالفت کرتے ہیں کہ اس سے ملکی فلم انڈسٹری تباہ ہو کر رہ گئی ہے۔ اب تو پاکستان کے اندر میں بھی کہانی اور پروڈوکش کے اعتبار سے اچھی فلمیں بن رہی ہیں۔ ہمیں اس کو پروموٹ کرنا ہے۔ نہ یہ کہ پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش کر کے بھارت کی فلم انڈسٹری کے ہاتھ مضبوط کریں بھارتی فلموں کے ”تھیم“ بھی اکثر و بیشتر ایسے ہوتے ہیں کہ اُن میں سے پاکستان مخالفت کی بُو آتی ہے۔
ہمیں بھی بحیثیت قوم اب جاگنا ہو گااور متعلقہ حکام جو فلم اور اس کی پاکستانی درآمدگی سے وابستہ ہیں کو بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش فی الفور روک کر بھارت کو یہ جواب دینا ہو گا کہ ہماری فلم انڈسٹری اس قابل ہے کہ وہ منفرد اور اچھوتے موضوعات پر فلمیں بنا کر اپنی پبلک کو entertain کر سکتے ہیں ہمیں بھارتی کلچر اور بھارتی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں شائد اسی لئے بھارتی رہنما سونیا گاندھی نے کبھی کہا تھا کہ ہمیں پاکستان سے جنگ لڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ ثقافتی سطح پر تو ہم جنگ پہلے ہی جیت چکے ہیں۔ ہمیں سونیا گاندھی کے اس تاثر کو رد کرنا ہو گا اور جس طرح پاکستان دفاعی سطح پر اپنے پاﺅں پر کھڑا ہے اس طرح کلچر اور دیگر شعبوں میں بھی ہمیں ایک باوقار سطح پر آنا ہو گا۔