تبصرہ جی آر اعوان
شاعری جذبات کی دل آویز موسیقی ہے ، احساسات کی حسین مصوری ہے، تخلیق کا ایک دلفریب رقص ہے۔ وہ جنت نگاہ بھی ہے اور فردوس گردش بھی، وہ جذب و شوق کی لغزشِ مستانہ بھی ہے عقل و شعور کا حسین ارتعاش بھی ہے، حسن و جمال کی دل موہ لینے والی لطیف سی تھرتھراہٹ بھی ہے۔
یہ جذبے”خیالوں کے مقابر“ میں ہیں جن کے خالق ملک محمد ایاز ہیں۔ ان کا تازہ ترین شعری مجموعہ پبلشرز میراں جی ڈیفنس لاہور 774۔بی فیز 5، ڈیفنس لاہور سے دستیاب ہے۔ کتاب کی قیمت 200 روپے ہے۔ سخن ور نے اس کتاب کا انتساب اپنے والدین کے نام کیا ہے۔
کتاب کا آغاز حسب معمول حمد ِ خدا سے کیا گیا ہے جس میں اپنی جان کے خدائے کبیر کی ملکیت ہونے کا اعتراف ہے جو قادر کریم اور قدیر عظیم ہے۔ نعت مصطفیٰٰ میں ایک گدائے بے نوا جو رب محمد کی خوشنودی کا آرزو مند ہے۔ اس بات کا اعتراف بھی ہے کہ چاہت جب ایمان بن جاتی تو بات کرنی آسان ہوتی ہے۔
شاعری دراصل سچائی کے متعلق اظہار کا دوسرا نام ہے۔سچائی حرفوں کے سناٹے میں گونج بن کر ابھرتی ہے، شاعر کا نظریہ حق اور نظریہ تخلیق انسان، ذات، کائنات، ماحول اور محبت کا احساس بن جاتا ہے۔
مہرو درخشاں
مولانا غلام رسول مہر کا تعلق اعوان خاندان ہے۔ اعوان قوم اولاد علی کرم اللہ وجہہ ہے۔ محمد بن حنیفہ اور حضرت عباس علمدار کی نسل ہے۔ اس قوم کی کئی گوتیں ہیں جو 95 خاندانوں پر مشتمل ہیں۔ مہر صاحب علم و فضل کا چشمہ جاریہ تھے۔ بے شمار افراد ان سے علمی معاملات میں رہنمائی کے لئے رجوع کرتے اور بذریعہ خط و کتابت اس چشمہ صافی سے آبیار ہوتے تھے۔
یہ سطریں محمد حمزہ فاروقی کی تالیف سے لی گئی ہیں۔ مجلس ترقی ادب لاہور کے ناظم ڈاکٹر تحسین فراقی کتاب کے ناشر ہیں، جبکہ طابع شرکت پرنٹنگ پریس 43 نسبت روڈ لاہور ہیں۔ کتاب کی قیمت 500 روپے ہے یہ کتاب محکمہ اطلاعات و ثقافت حکومت پنجاب کی اجازت سے شائع ہوئی ہے۔ کتاب کا انتساب مولف نے ثرادِ نو محمد اکمل خان لغاری (نواسہ) اور مرتضیٰ فاروقی پوتے کے نام کیا ہے۔
بارہ ابواب پر مشتمل کتاب میں مہر صاحب کے خاندانی حالات، خاندانی روابط، والدہ مہر، جیونی صاحبہ، دوسری بیوی اور اولاد، ابتدائی تعلیم، ثانوی تعلیم، اسلامیہ کالج، کالج کے بعد کے مشاغل، مہر حیدرآباد دکن میں، حیدرآباد کے شب و روز، مذہبی خیالات، عارضہ آشوب چشم، طرز بود و ماند، مہر اور صبح آزادی، ذوق کتب اندوزی، معاشی حالات، 1965ءکی جنگ اور مہر، دور آخر، اقبال سے روابط قابل ذکر ہیں۔
اس کے علاوہ مولانا ابو الکلام آزاد سے تعلقات کی ابتدائ، نقش آزاد، آزادی ہند کی کہانی، آزادی کی کہانی کچھ میری اور کچھ ان کی زبانی، مہر اور ظفر علی خان، احباب اور معاصرین، اسلام اور قتل مرتد، کراچی روانگی، مکہ معظمہ، مدینہ منورہ حاضری، معرکہ زمیندار و ہمدرد، انقلاب کا اجراءانقلاب اور افغانستان، سید احمد شہید، غالب شناسی، مہر بیتی، دویاد گار سفر اور 1931ءکا یورپ دلچسپ ابواب ہیں۔ کتاب سوانح حیات کے ساتھ ساتھ ایک رواں تاریخ ہے جو سیاحت، سیاست اور علمیت کا خزانہ ہے۔
انجمن حمایت اسلام، ایک تحریک ایک ادارہ
تبصرہ جی آر اعوان
1857ءکی جنگ آزادی کے بعد برصغیر کے مسلمانوں کے سماجی اور معاشی حالات انتہائی دگرگوں ہو چکے تھے۔ اکثریت انتشار اور پس ماندگی اور مایوسی میں مبتلا تھی۔ تب تک وقت کی معاشرت میں صرف ہندوو¿ں اور مسیحوں کے، بہبودی اور رفاعی ادارے قائم ہوئے۔ 1884ءمیں درد دل رکھنے والے باشعور مسلمانوں سے اپنی مدد آپ کے تحت، رفاعی شعبوں میں ترقی کی خاطر انجمن حمایت اسلام کی بنیاد رکھی، اس کے پہلے صدر خلیفہ احمد الدین 1886ءمیں منتخب کئے گئے۔
یہ سطریں انجمن حمایت اسلام ”ایک ادارہ ایک تحریک“ سے لی گئی ہیں جو دفاعی و تعلیمی خدمات کے درخشاں130 برسوں (1884-2014) کی لازوال داستاں ہے۔ کتاب کے طابع حمایت اسلام پریس ریلوے روڈ لاہور ہیں جبکہ ناشر انجمن حمایت اسلام لاہور 119 ملتان روڈ لاہور ہیں، کتاب کی قیمت 600 روپے ہے کتاب کے مصنف اطہر غوری ہیں۔
انجمن حمایت اسلام کے زیر انتظام چلنے والے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ، اسلامیہ کالج سول لائنز اور اسلامیہ کالج برائے خواتین کوپر روڈ لاہور اور درجنوں سکولوں کے طلبہ و طالبات تحریک آزادی اور تحریک پاکستان کا ہراول دستہ تھے۔ 1901ءمیں حکیم الامت ڈاکٹر علامہ اقبال انجمن حمایت اسلام کے رکن بنے اور صدر انجمن عبدالقادر کے انگلینڈ جانے کے بعد شاعر مشرق نے انجمن کی صدارت سنبھالی۔ یہ تسلسل یوں جاری رہا کہ بعد میں فرزند اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال تادم آخر انجمن کے قائد رہے۔
سر سید نے انجمن کے سالانہ جلسے سے اپنے خطاب کہا تھا، انجمن کا جواز فقط یہی ہے کہ لوگ اپنے دکھ اور تکالیف بھول کر حاجت مندوں کی حاجت روائی اپنا فرض اولین سمجھتے رہیں، اظہر غوری نے انجمن حمایت کی تاریخ، خدمات اور روایات کو شاندار طریقے سے تالیف کیا۔ کتاب دنیا بھر اور اہل وطن کو لاہور کی روایات سے روشناسی کر رہی ہے۔