موجودہ مالی سال کے گذشتہ دومہینے پاکستان کی برآمدات کے لئے امید افزاءاورکچھ اطمینان بخش رہے کہ گذشتہ دو ماہ میں پاکستان کی برآمدات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جولائی 2017میں پاکستان کی برآمدات 1,631ملین ڈالرز رہی ہیں جوکہ گذشتہ سال کے اسی ماہ کے 1,475ملین ڈالرز کے مقابلے میں 10.58فیصد زیادہ ہیں ۔
اسی طرح سے اگست 2017میں پاکستان کی برآمدات 1,866رہیں جو گذشتہ سال کے اسی ماہ کی برآمدات 1,653ملین ڈالرز سے 12.89فیصد زیادہ اور جولائی 2017کی برآمدات 1,631ملین ڈالرز سے 14.41فیصد زیادہ ہے۔ اسی طرح اگر ہم جولائی اور اگست2017کی مجموعی برآمدات کا گذشتہ سال کے اسی عرصے کی برآمدات سے موازنہ کرتے ہیں تو گذشتہ سال کے مقابلے میں اس سال کے دو ماہ میں برآمدات میں مجموعی طور پر 11.8فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس لئے یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ پاکستان کی برآمدات میں اضافہ پاکستان کی معیشت کے لئے بہتر اورامید افزاءرجحان ہے۔
اس امید افزاءرجحان کے بعد ہم اگر گذشتہ دو ماہ کی درآمدات کو دیکھتے ہیںتو اس میں ہمیںخطرناک صورتحال کا سامنا ہے کہ گذشتہ مالی سال کے دو ماہ میں ہماری درآمدات 7,839ملین ڈالرز تھیں جو اب موجودہ مالی سال کے دو ماہ میں 9,787ملین ڈالرز ہوچکی ہیں یعنی کہ درآمدات میں 24.85فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور درآمدات کے اسی اضافے کے رجحان کی وجہ سے گذشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں پاکستان کے تجارتی خسارے میں 33.52فیصد اضافہ ہوا ہے جو پاکستان کی معیشت کے لئے سراسر نقصان دہ ہے کیونکہ تجارتی خسارے میں اضافے کی وجہ سے ملک کی معیشت پر ادائیگیوں کا بوجھ بڑھ جاتا ہے ۔ اس لئے برآمدات میں اضافے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ یہ بات ازحد ضروری ہے کہ درآمدات میں کمی کرنے کی پالیسی پر بھی عمل ہونا چاہیے تاکہ پاکستان کا تجارتی خسارہ اور ادائیگیوں کا دباﺅکم سے کم ہومگر پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے پالیسی ساز اداروں میں بیٹھے ہوئے افلاطون برآمدات بڑھانا تو کجا درآمدات بھی کم کرنے سے قاصر ہیںبلکہ درآمدات بتدریج بڑھانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
اگر ہم اپنے درآمدی بل کا جائزہ لیں توپاکستان کا سب سے بڑادرآمدی بوجھ پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات ہے جس کی وجہ سے مالی سال 2016-17میں ہمارے زرمبادلہ پر 10.606ارب ڈالرز کا بوجھ پڑا تھاجو ہمارے مجموعی برآمدی بل کا 20فیصد ہے جس میں سے پیٹرولیم مصنوعات کی مد میں6.379ارب ڈالرز، 2.764ارب ڈالرزخام تیل کی مد میں، 1.27ارب ڈالرز ایل این جی کی مد میں اور190ملین ڈالرز ایل پی جی کی درآمد کی مد میں ادائیگیاں کی گئی ہیں جبکہ محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 436بلین بیرل پیٹرولیم کے ذخائر ہیں ،282ٹریلین کیوبک فیٹ گیس کے ذخائر ہیںاور تھرمیں 185بلین ٹن کوئلے کے ذخائرہیںجس سے پیٹرول یا گیس دونوں حاصل کی جاسکتی ہیںمگر ہم ان کو دریافت کرنے اور اس سے استفادہ حاصل کرنے کے بجائے عالمی اداروں کے دباﺅ اور ان کی خوشنودی کے لئے خام تیل ، تیل ، ایل این جی اور ایل پی جی کی درآمدات پر ہی اکتفا کئے بیٹھے ہیںاور اپنے بے پناہ قدرتی و معدنیاتی وسائل سے صرف نظر کررہے ہیں۔ حالانکہ اگر ہم اپنے وسائل کوبروئے کار لائیں تو ناصرف اپنا درآمدی بل انتہائی کم یا ختم کرسکتے ہیں بلکہ پیٹرولیم مصنوعات دیگر ممالک کو برآمد کرکے اپنی معیشت کو بہتر بناسکتے ہیں۔جیسا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگریہ بھی کسی المیے سے کم نہیں کہ پاکستان گنے کی پیداوار میںدنیاکا پانچواں بڑا ملک ہے مگر ہم 4.5ملین ڈالرز کا زرمبادلہ چینی کی برآمدات پر خرچ کررہے ہیں ۔ اسی طرح سے پاکستان دودھ کی پیداوار میں بھی دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے مگر ہم اپنی ضروریات کے لئے اپنے ملک کی پیداوار سے فائدہ اٹھانے کے بجائے 235ملین ڈالرز دودھ اورکریم کی درآمد پر لگارہے ہیں حالانکہ اگر ہم اپنے کیٹل فارمز کو ترقی اور سہولیات دیں تو پاکستان دودھ اور دودھ سے بنی پروڈکٹ دنیا کے کئی ممالک کو برآمد کرکے کثیر زرمبادلہ حاصل کرسکتا ہے ۔ اسی طرح کئی ایسی اشیاءبھی ہیںجن کی درآمد کوباآسانی کم کر کے کثیر زرمبادلہ کو درآمدمیں استعمال ہونے سے بچایا جاسکتا ہے جیسا کہ ہمارے ملک میں1.4ملین ڈالرز کی ڈرائی فروٹ کی درآمدکی جارہی ہیں، مصالحہ جات کی درآمد پر 118ملین ڈالرز، پام آئل کی درآمد پر 1,783ملین ڈالرز، چائے کی درآمد پر 517ملین ڈالرزاور دیگر فوڈ آئٹمز کی درآمدپر 1,677ملین ڈالرزکے زرمبادلہ خرچ کئے جارہے ہیں۔
جبکہ مندرجہ بالا اشیاءمیں سے کئی اشیاءایسی ہیں جن کی درآمد میں کمی کی جاسکتی ہے اس لئے تمام تاجروںاور عوام کوبحیثیت قوم سوچنا اور عمل کرنا چاہیے کہ ایسی درآمدی اشیاءکے استعمال میں کمی لائی جائے جس سے تجارتی خسارے میں اضافہ ہوتا ہے ۔اس کے علاوہ چونکہ ہمارے ملک میںایک منظم منصوبہ بندی کے تحت پیداواری عمل کی راہ میں روکاوٹیں ڈالی گئی ہیں اور ہمیں مجبور کیا گیا ہے کہ درآمدی اشیاءکی خریداری کریں اس لئے ٹیلی کام اورموبائل فون جیسے عام استعمال اور چھوٹے آئٹم کے لئے بھی ہم درآمد کرنے پر مجبور ہیں اورٹیلی کام کے آئٹم کی درآمدات پر اپنا 1,023ملین ڈالرز اور موبائل فونز پر 619ملین ڈالرز کا زرمبادلہ استعمال میں لارہے ہیںحالانکہ اگر ہم موبائل فون کمپنیوں کو پابند کریں کہ وہ اپنی مصنوعات کی پیداوار ٹیکنالوجی کے ساتھ پاکستان میں ہی کریں تو ناصرف ہمارا کثیر زرمبادلہ بچے گا بلکہ ساتھ ساتھ روزگار کے بے شمار ذرائع پیدا ہوں گے ۔درآمد پر ایک اور بڑا بوجھ ٹرانسپورٹ صنعت کا بھی ہے جبکہ اس صنعت سے وابستہ چند اداروں نے اس پر اپنی اجارہ داری قائم کی ہوئی ہے اور انہوں نے پاکستان میں ٹیکنالوجی کے ساتھ اپنی پیداوار کرنے کے بجائے اسمبل کرنے پر بھی اپنا پورا زور لگارکھا ہے جس کی وجہ سے ٹرانسپورٹ صنعت کی وجہ سے بھی ہمارا درآمدی بل متواتر بڑھتا جارہا ہے جیسا کہ کار، بس ، ٹرک ، موٹر سائیکل ، ائیر کرافٹ ، شپس ، بوٹس اور ان کے دیگر پارٹس کی برآمدات کے لئے پاکستان نے 2013-14میں1.659ارب ڈالرز، 2014-15میں 1.962ارب ڈالرز، 2015-16 میں 1.861ارب ڈالرز اور 2016-17میں 2.643ارب ڈالرز کا زرمبادلہ خرچ کرچکے ہیں۔حالانکہ اگر ہم اس شعبے میں بھی اسمبلنگ کے بجائے پیداوری عمل شروع کرتے تو ہم اس شعبے کا درآمد ی بل کم کرسکتے ہیں۔
اب یہ بھی سوچنے کا مقام ہے کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل کے شعبہ کا پاکستان کی برآمدات میں سب سے زیادہ حصہ ہے اور ہم اپنی خام کاٹن ، کاٹن یارن، بیڈ شیٹ، تولیہ ، ہوزری ، پینٹ ، شرٹ ، ٹراﺅزرزاور دیگراستعمال کی اشیاءکی برآمدات کرتے ہیں مگر یہ بھی ستم ظریفی دیکھئے کہ ہم ٹیکسٹائل کی اشیاءکی درآمدات پر بھی3.884ارب ڈالرز کا زرمبادلہ ضائع کرتے ہیں جبکہ مالی سال2016-17میں صرف خام کاٹن کی درآمد پر ہی 909ملین ڈالرز کی خطیر رقم خرچ کی ہے حالانکہ اگر ہم کفایت شعاری سے کام لیں اور اپنے ہی وسائل کو بروئے کار لائیں تو ٹیکسٹائل کی درآمد کے حوالے سے کئی گنا زرمبادلہ بچایا جاسکتا ہے۔
میٹل گروپ کی درآمد کے حوالے سے بات کریں تو پاکستان لوہے ، اسٹیل ، المونیم اور دیگر دھاتوں کی درآمد پر 3.785ارب ڈالرز اور صرف اسٹیل اور لوہے کی درآمد پر 2.092ارب ڈالرز کی خطیر رقم استعمال میں لارہا ہے جبکہ پاکستان میں لوہے، سونے، تانبے اور دیگر دھاتوں کے بے شمار ذخائر موجود ہیں اور پاکستان اسٹیل مل بھی اسٹیل اور لوہے کی تیاری میں خودکفیل ہے مگرہماری آسان طلبی دیکھئے کہ ہم اپنے وسائل سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اور قومی سود وضیاں کو سوچے ب©غیردرآمد کے آسان راستے کو اپنائے جارہے ہیں ۔درآمدی بل کے حوالے مزید اعدادوشمار اور بھی ہیں مگر کالم کی طوالت سے بچنے کے لئے یہاںاختصار سے کام لے رہا ہوں۔اس لئے اگر ہمیں اپنی معیشت کو مستحکم اور مضبوط بنانا ہے تو برآمدات بڑھانے کے ساتھ ساتھ درآمدات میں بھی کمی لانی ہوگی کیونکہ اگر برآمدات بڑھابھی لی جائیں اور درآمدات بھی اسی تناسب سے بڑھتی جائیں تواس کا فائدہ پاکستان کی مجموعی معیشت کو نہیں پہنچ سکے گا۔اس لئے جہاں تک ممکن ہوسکے درآمد ات کی حوصلہ شکنی کی جائے اور برآمدات بڑھانے کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔جبکہ درآمدات میں کمی لانے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے دستیاب وسائل پر بھروسہ کیا جائے اور مزید وسائل بڑھانے کی جانب قدم بڑھایا جائے اور وہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک اور دیگر مالیاتی اداروں کے شکنجے سے آزاد ہوکر اپنے ملک میں انجینئرنگ ، آٹو انجینئرنگ، کیمیکل، الیکٹرک، الیکٹرونک اور دیگر شعبہ جات میں پیداواری عمل شروع کرکے پیداوار بڑھائیں اور درآمدی بل کو کم کریں کیونکہ 26ستمبر کو ایشئین ترقیاتی بینک نے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کو وجہ بناتے ہوئے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
درآمدات میں اضافہ ایک خطرناک رجحان
Sep 30, 2017