صحافی کو ایک اچھا سورس میسر آ جائے تو وہ اس کے لئے ایک قیمتی اور قابل قدر اثاثہ ثابت ہوتا ہے۔میری آنکھیں کام نہیں کرتیں تو میں دوسروں کی دور بین نظروں سے دیکھنے کی عادت ڈال رہا ہوں۔
پچھلے ہفتے جنرل غلام مصطفی نے مجھے بتایا کہ وہ اسلام ا ٓباد جا رہے ہیں۔ جب بھی ان سے بات کرو ، وہ اسلام آباد یا اپنی زمینوں کی طرف جا رہے ہوتے ہیں، وہ ہر وقت گردش میں رہتے ہیں،گھومنا پھرنا ایک نعمت ہے جو ہر کسی کو میسر نہیں ہوتی۔ اس سے قوت مشاہدہ تیز ہوتی ہے اور انسان کئی معاملات کو براہ راست دیکھ سکتا ہے اور تاریخ کے لئے عینی شہادت بن جاتا ہے۔ اس دفعہ وہ اسلام ا ٓباد میں ایک اہم مشن پر جا رہے تھے، وہاں افغان امن مذاکرات ہو رہے ہیں، ان کے پیچھے ڈنمارک کا رائل ڈیفنس کالج ہے اور پاکستان میں مختلف این جی اوز بھی اس عمل میں پیش پیش ہیں۔میںنے جنرل صاحب سے وعدہ لیا کہ ان مذاکرات کی کہانی کے جملہ حقوق میرے نام محفوظ ہیں، چنانچہ جیسے ہی وہ سفر سے واپس آئے ان کے ساتھ ایک نشست کا اہتما م کیا گیا۔ جنرل صاحب نے بتایا کہ احمد شاہ محسود واحد افغان لیڈر تھا جو اپنے ملک میں امریکی افواج کی آمد کا مخالف تھا، اسے ایک سازش کے ذریعے شہید کر کے راستے سے ہٹادیا گیا۔اس کے بعد کی داستان ایک ایسا سانحہ جس کی ایک ایک تفصیل ہر ایک کو معلوم ہے۔
جنرل صاحب نے بتایا کہ اسلام آباد کے مذاکراتی دور میں گلبدین حکمت یار کا نوجوان داماد پیش پیش تھا، اس نے میرے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیا، میرے اوپر اس کے اعتماد کی وجہ یہ تھی کہ جن دنوں بھٹو صاحب نے حکمت یار کو ایک منظم منصوبے کے تحت پاکستان میں پناہ فراہم کی تھی تو اس کی خبر گیری اور پروٹوکول کی ذمے داریوں میں میں بھی کسی سطح پر شریک تھا، بہر حال اس نوجوان نے اندیشہ ظاہر کیا کہ امریکہ ہمارے ہاں واپس جانے کے لئے نہیں آیا، قرائن سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ یہاںمستقل ڈیرے ڈالے رکھے گا۔اب تو ساری حکمت عملی یہ ہونی چاہئے کہ اس کے ہوتے ہوئے ہم اپنے اپنے مفادات کا زیادہ سے زیادہ کیا اور کیسے تحفظ کر سکتے ہیں۔ ویسے افغانستا ن میں اکیلا امریکہ نہیں، دوسری طاقتیں بھی موجود ہیں لیکن امریکہ کا پلہ اس لئے بھاری ہے کہ اس کے ساتھ ایک تو نیٹو کی اتحادی افواج بھی موجود ہیں ، دوسرے وہ افغان ڈرگ انڈسٹری اور وار انڈسٹری پر بھی تن تنہا قابض ہیں۔افغانستان کی معدنیات کا خزانہ بھی ان کے تصرف میں ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس قدرگھمبیرصورت حال میں ہم اپنا راستہ کیسے نکالیں۔حوصلہ افزا ایک بات یہ ہے کہ چین نے افغانستان میں لا محدود سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور روس بھی کسی سے پیچھے نہیں، ساتھ ہی ساتھ بھارت بھی ہر جگہ نظر آتا ہے۔وہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے اڈے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ اس کام کے لئے اس کا وسیع نیٹ ورک موجود ہے اور وہ ہمسایہ ایران کی سرزمین کو بھی استعمال کرتا ہے، جہاں سے ایک بھارتی را کا جاسوس کل بھوشن یادیو بلوچستان داخل ہوتے ہوئے پکڑا گیا۔ اس پر ایران کو سخت خفت کا سامنا کرنا پڑا مگر ضروری نہیں کہ ایران کو بھارتی نیٹ ورک کی موجودگی کا کوئی علم بھی ہو۔ لیکن اس ایک واقعے سے پاک ایران تعلقات میں رخنہ ضرور پڑا ہے، ایران اگر چوکسی کا مظاہرہ کرے تو آئندہ کے لئے وہ بھارتی نیٹ ورک کے سامنے بند باندھ سکتا ہے۔
جہاں تک افغان امن مذاکرات کی بات ہے تو اس میں ہر ملک ، ہر ملک سے بات کر رہا ہے کیونکہ یہاں ہر ایک کا مفاد وابستہ ہے، افغان سرزمین کو تو شطرنج کی ایک بساط بنادیا گیا ہے۔چین اور امریکہ کے براہ راست مذاکرات بھی چل رہے ہیں، چین کی کوشش یہ ہے کہ وہ افغان طالبان سے بالا ہی بالا بات طے کر لے۔ یہی رویہ روس کا ہے، وہ امریکہ اور طالبان سے بات جاری رکھے ہوئے ہے۔ بھارت بھی افغان طالبان سے کھیل رہا ہے مگر اس کا زیادہ انحصار کابل حکومت پر ہے۔ پاکستان اور افغان حکومت کے درمیان بھی بات چیت جاری ہے۔ مگر یہ نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی، پاکستان تو ہر لحاظ سے آزاد ہے اوراسے کوئی ڈکٹیٹ نہیں کر سکتا مگر کابل حکومت آزادا ور خود مختار نہیں ہے، وہ اپنی مرضی سے کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں، بار بار اسے امریکہ سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ بھارت کا ایک ہی مفاد ہے کہ اسے افغانستان پہنچنے کے لئے کھلی راہداری مل جائے۔ میاںنواز شریف نے اپنی حکومت کے اوائل میں اس کی کھل کر حمایت کی تھی مگر عوامی رد عمل کے پیش نظر وہ خاموش ہو گئے مگر پچھلے دنوں کمانڈرسدرن کمان( جو اب لاہور متعین ہو گئے ہیں ) نے بھارت کو پیش کش کی تھی کہ وہ بلوچستان میں دہشت گردی ترک کرے اور سی پیک میں شامل ہوکرا سکے فوائد سے استفادہ کرے۔ویسے تو یہ ان کی ذاتی رائے نہیںہو سکتی۔ لیکن پھر بھی ہر پاکستانی کو یہ نکتہ ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ چین جب چاہے گا، وہ پاکستان کے بازو مروڑ کر یہ بات منوا لے گا کہ بھارت کو کھلی راہداری دی جائے۔ چین نے تین بر اعظموں کو باہم تجارتی روابط سے جوڑنا ہے تو وہ سوا ارب کی آبادی کے ملک بھارت سے صرف نظر نہیں کر سکتا۔ چین کی حالت تو یہ ہے کہ برما کے ساتھ اس کے جو تجارتی مفادات وابستہ ہیں ، ان کی وجہ سے اس نے اب تک روہنگیا مسلمانوں پر برمی حکومت کے مظالم کی مذمت نہیں کی جبکہ او آئی سی اور اقوام متحدہ تک اس قتل عام اور وسیع پیمانے پر نسل کشی کے خلاف قراردادیں منظور کر چکے ہیں۔چین نے سی پیک پر سرمایہ کاری کرنی ہے تو اسے مفید اور کارآمد بھی بنانا ہے، اس لئے ہم چاہیںیا نہ چاہیں ،نظر یہ آ رہا ہے کہ وہ پاکستان کو مجبور کر دے گا کہ بھارت کو زمینی راستہ دیا جائے۔
جنرل غلام مصطفی نے کہا کہ یہ سب کچھ ابھی ابتدائی اسٹیج پر ہے، جب تمام فریق ایک دوسرے سے صلا ح مشورہ کر کے کسی نتیجے تک پہنچ جائیں گے تو پھر وہ ایک میز پر بیٹھ کر کوئی حتمی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔
جنرل صاحب سے سوال کیا گیا کہ پاکستان اپنے مفادات کا تحفظ کیسے کرے گا۔ جنرل صاحب نے ایک لمبی آہ بھری اور کہا کہ اس میں دو رکاوٹیں در پیش ہیں ، ایک تو بدقسمتی سے ہم باہم سر پھٹول میںمصروف ہیں اور اس صورت حال میں ہم خارجہ امور پر یکسوئی سے توجہ مرکوز نہیں رکھ سکتے،، دوسرے ہم جس قدر مرضی خوش فہمی کا شکار ہوں کہ طالبان ہمارے بچے ہیں، یہ محترمہ بے نظیر نے کہا تھا۔ مگر اب طالبان یکسر بدل چکے ہیں، وہ زمانہ لد گیا جب ہمارے آئی ایس آئی چیف جنرل محمود ملا عمر سے ملنے گئے تھے تو ان کی تواضع بکری کے دودھ ا ور ابلے ہوئے چاولوں سے کی گئی تھی، اب ان طالبان کا لائف اسٹائل بدل چکا، اب وہ مال و دولت کے مالک ہیں، پاکستان کے ہر شہر میں ان کے محلات ا ور یورپ اور امریکہ میں ان کی جائیدادیں ہیں۔ اس لئے وہ کھانے پینے، پہننے، یا رہائش تک کے لئے پاکستان کے محتاج نہیں رہے ، اب تو پاکستان کسی عقلی دلیل ہی سے ا نہیں قائل کر سکتا ہے مگر سوال یہ ہے کیا ہم اس عقل کے مالک بھی ہیں۔