بھارت مذاکرات سے فرار کیوں اختیار کر رہا ہے؟

وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالتے ہی عمران خان نے اپنے بھارتی ہم منصب نریندرمودی کو خیر سگالی کا پیغام بھیجا اور امن کی خاطر تمام معاملات مع کشمیر پہ مذاکرات کی دعوت دی۔ بظاہر عمران خان کی دعوت قبول کر لی گئی اور یہ طے ہوا کہ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پہ بھارت کی وزیرخارجہ سشما سوراج اور پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمو د قریشی نیویارک میں ملاقات کریں گے اور مختلف معاملات کو سلجھانے کا لائحہ عمل طے کریں گے اس اعلان کا پاکستان کے علاوہ امریکہ اور یورپ میں بھی خیر مقدم کیا گیا لیکن ابھی48گھنٹے بھی نہیں گذرے تھے کہ بھارت مذاکرات سے مکر گیا۔ راہ فرار اختیار کرنے کی دو وجوہات بیان کی گئیں۔ مقبوضہ کشمیر میں تین پویس کے جوانوں کو قتل کرکے الزام پاکستان کے سرتھوپ دیا گیا۔ دوسرے یہ پاکستان کے محکمہ ڈاک نے مقبول نوجوان کشمیری رہنما برھان وانی شہید اور ان کے دوساتھیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کی خاطر خصوصی ڈاک کے ٹکٹ جاری کئے۔قارئین کو یاد ہوگا کہ8جولائی 2016ء کو برھان وانی کو ان کے ساتھیوں سمیت بھارتی فوج نے گھات لگاکر انتہائی سفّاکانہ اور مکارانہ طریقے سے شہید کردیا تھا۔ برھان وانی کی شہادت کے بعد ہزاروں کی تعداد میں کشمیری نوجوان احتجاج کی خاطر سرینگر کی سڑکوں پہ نکل آئے۔ بھارتی پویس اور فوج نے ان نہتے نوجوانوں پہ ایک نئے قسم کا ہتھیار آزمایا گے۔ ان پہ چھّرے والی بندوقوں سے بوچھاڑ کی گئی جس کے نتیجے میں250نوجوان شہید ہوچکے ہیں لیکن زیادہ تکلیف دہ امریہ ہے کہ 3,600سے زائد بچوں کی آنکھوں کا نشانہ بنایا گیا جس سے انکی بینائی ہمیشہ کے لئے زائل ہوگئی۔
پوری بھارتی میڈیا بی جے پی کے شدت پسند سیاسی رہنمائوں اور بھارتی فوج کے انتہاء پسند سپہ سالار جنرل بپن راوت نے پاکستان کو اس انداز سے دھمکیاں دینی شروع کردیں جیسے کہ خدانخواشتہ بھارت پہ پاکستان نے جنگ مسلط کردی ہو۔ بھارتی فوج کے سپہ سالار کو کچھ ذمہ داری کا ثبوت دینا چائیے تھا۔ وہ خود ایک ایسی فوج کے سربراہ ہیں جو ایٹمی ہتھیاروں سے مسلحّ ہے دوسری جانب انکا مقابلہ پاکستان سے ہے جو خود ایٹمی طاقت ہے۔ دونوں ملکوںمیںاگر تصادم ہوتا ہے تو نتیجہ دونوںحریفوں کے لئے تباہ کن ہوگا لیکن جنرل بپن راوت اپنی گیڈر بھبکیوں سے باز نہ آئے اور پاکستان کو دھمکیاں دیتے رہے کہ وہ ہماری اینٹ سے اینٹ بجادیں گے اور پاکستان کو سبق سکھانے کا وقت آگیا ہے، ایک اور سرجیکل اسٹرائک Surgical Strikeکی ضرورت ہے۔ پہلی سرجیکل اسٹرائک کا جھوٹ پہلے ہی پکڑا گیا تھا اور وہ اب دوسری سرجیکل اسٹرائک کی دھمکی دی ہے۔ جنرل بپن راوت نے اپنی حکومت کے کہنے پہ یہ دھمکیاں دیں۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ مذاکرات سے کیوں کترارہا ہے؟ اسکی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے اہم وجہ پاکستان اور بھارت کے مابین مسئلہ کشمیر ہے۔ بھارت کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس نے کشمیر پہ غاصبانہ قبضہ کررکھا ہے۔19ستمبر2018؁ء کو زیر ک اور انتہائی تجربہ کار سابق سفیر جناب یوسف بچ جو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے سینئر مشیر کے عہدے پہ فائزرہے ہیں اور پانچ دہایوں سے مسئلہ کشمیر کو قریب سے دیکھ رہے ہیں، کی ملاقات ڈاکٹر غلام نبی فائی جو ورلڈ کشمیر بیداری فورم کے واشنگٹن میں سیکرٹری جنرل ہیں، نیویارک میں ہوئی۔ یوسف بچ صاحب سے سوال کیا گیا کہ کیا بھارت کا مقبوضہ کشمیر پہ دعویٰ حتمی ہے؟ جواب میں یوسف بچ نے فرمایا کہ بھارتی پوزیشن محض ایک فسانہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مقبول بغاوت کے پیش نظرکشمیر کا ہندو مہاراجہ ہری سنگھ راہ فرار اختیار کرنے پہ مجبور ہو گیا تھا۔ بھارتی فوج نے غاصبانہ قبضہ کیا جسے جائز ثابت کرنے کے لئے ہری سنگھ سے الحاق کی دستاویزات پہ بعد میں دستخط کروائے گئے۔اس سنگین جرم کے چشم دید گواہ موجود ہیں اور کسی بھی بین الاقوامی عدالت میں بھارتی جھوٹ کی قلعی کھل جائے گی اسی وجہ سے وہ مذاکرات سے کتراتا ہے۔مودی حکومت نے اپنی انتخابی مہم میں بھارت کو جس معاشی طاقت بنانے کا وعدہ کیا تھا وہ اپنی ساڑھے چا ر سالہ دور حکومت میں بری طرح ناکام ہوئے۔ البتہ انہوں نے ہندو انتہاء پسندوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی تھی جنہوں نے بھارت میں اقلیتوں پہ خصوصا مسلمانوں پہ جو مظالم ڈھائے اس کانوٹس بھارت میں موجود اعتدال پسندوں اور عالمی اداروں میںقابل احترام شخصیات نے لیا اور بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کو عرضداشت پیش کی جس میں انہیں انتباہ کیا گیا تھا کہ وہ اقلیتوں پہ ظلم وستم سے باز آئیں۔
نریندرمودی نے اپنی شدت پسند عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ مقبوضہ کشمیر کجا پورے کشمیر کو بھارت میں ضم کردیں گے۔ مقبوضہ کشمیر میں انتخابات میں مات کھانے اور معصوم کشمیریوں پہ ظلم وستم کرنے کے باوجود وہ اپنے گھنائونے منصوبے میں ناکام رہے۔ بلوچستان اور سندھ میں چپقلش پھیلانے کی سازشیں بھی کمانڈر کلبھوشن یادو کی گرفتاری کے بعد ناکام ہوئیں۔ تحریک طالبان پاکستان اور داعش کی سرپرستی کرکے پاکستان میں دہشت گردی کا جال بچھانے کی سازش بھی پاک فوج کے ملیٹری آپریشن’’ ضرب عضب‘‘ اور’’ ردالفساد‘‘ کے باعث ناکام ہوئیں۔ابھی نریندرمودی کے منہ زور وزراء اور جنرل بپن راوت پاکستان کے خلاف زہر اگلنے میں مصروف تھے کہ فرانسیسی صدر ہولینڈ ے نے بھارت اور فرانس کے مابین جدید لڑاکا طیارے ’’رافیل‘‘ میں مودی کی جانب سے بدعنوانی کابھانڈا پھوڑ دیا ۔ بھارتی حزب مخالف مودی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہی ہے۔ یہ قدرت کی ستم ظریفی ہے کہ نریندرمودی کے گہرے دوست پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف پاناما سکینڈل اور صادق وامین نہ ہونے کہ باعث وزارت عظمیٰ کہ عہد ے سے سبکدوش کردئیے گئے تھے۔اب بدعنوانی کے الزام میں نریندرمودی کے سر پر نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے۔
2019؁ء میں بھارت میں عام انتخابات ہوں گے۔ مودی جو پاکستان دشمنی کے چیمپئن ہیں اگر اس وقت پاکستان سے امن مذاکرات کا آغاز کریں تو یہ انکی کمزوری کا اظہار ہوگا۔بھارتی جنتا پارٹی ہر قیمت پر اگلا الیکشن جیتنا چاہتی ہے، خوا ہ اس کے لیے پاکستان کے ساتھ محدود جنگ کرنی پڑے۔ بھارت کو معلوم ہونا چاہیے کہ نہ پاکستان تر نوالہ ہے نہ بھوٹان، سکم ، نیپال ، میانمار ، مالدیپ ، سری لنکا ، بنگلہ دیش یا افغانستان ۔ ہم اللہ کے فضل وکرم سے ایٹمی طاقت ہیں۔ ہم کسی سے جنگ نہیں چاہتے لیکن اگر کسی نے میلی نگا ہ سے ہماری طرف دیکھا تو ہم اپنا دفاع کرنا خوب جانتے ہیں۔ بھارت کو آج نہیںتو کل مذاکرات کی میز پہ آنا پڑے گا۔ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی؟

ای پیپر دی نیشن