بقول مرزا اسداللہ خان غالب
حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو مَیں
غلامانہ سوچ کے اس دور میں ذہن سازی سب سے زیادہ اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ذہن سازی کیا ہوتی ہے، اس کے لیے ایک چھوٹی سی مثال سے گزارہ کرتے ہیں ایک مثبت چیز کے بارے میں اگر آپ کا منفی ذہن بن چکا ہے تو وہ شاید ہی تبدیل ہوسکے۔ یا اگر کسی منفی چیز کے بارے میں آپ کا مثبت ذہن بن چکا ہے تو 99فیصد چانسز ہوتے ہیںکہ وہ تبدیل ہو۔ ایک دوسری مثال کہ اگر ہمارا ذہن یہ بن چکا ہے کہ ہماری آنکھوں کو امیر ترین ، طاقتور ترین اور بدتمیز ترین حکمران اچھا لگنا ہے( یہ الگ بات ہے کہ کام وہ چاہے اپنے مفاد کے لیے کرے لیکن سیٹ پر ’’پھبنا ‘‘ضرور چاہیے)تو ایسی صورت میں ’’عام آدمی‘‘ خواہ وہ عوام کے حقوق کی بات کرے، خواہ وہ کرپشن کے خلاف کھلے عام جنگ کی بات کرے، خواہ وہ بیوروکریسی کو ٹھیک کرنے کی بات کرے، خواہ وہ پولیس ریفارمز کی بات کرے، خواہ وہ صوبے میں تعلیم و صحت پر توجہ دینے کی بات کرے، خواہ وہ قانون کی بالادستی کی بات کرے وہ کبھی ہمارے ذہن میں بیٹھ ہی نہیں سکتا۔ یہی حقیقت ہے کیوں کہ ہم نے گزشتہ 35سال تک جن چہروں کو دیکھا ہے ، جن چوروں نے لوٹ مار کی ہے، جن چہروں نے ملک کو رسواء کیا ہے اور جن ڈاکوئوں اور ایکسپرٹ ’’خزانچیوں‘‘ نے ملک کی معیشت کو وینٹی لیٹر پر پہنچا دیا ہے وہ ہمارے ذہنوں میں سرائیت کر چکے ہیں۔
آپ عثمان بزدار سے لے کر وزیراعظم عمران خان تک کی مثال لے لیں مجال ہے کسی کو یہ شخصیات ہضم ہو رہی ہوں۔ اور اس اہم ترین دور میں معذرت کے ساتھ سب سے زیادہ منفی کردار بعض لوگ صحافت کے نام پر ادا کر رہے ہیں (واضح رہے ہمارے یہاں ذمہ دار صحافیوں کی کمی نہیں اور انہیں معاشرہ انتہائی احترام بھی دیتا ہے) یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی کہانی کے تین کردار ہیں پہلا کردار غریب حاکم، دوسرا امیر آدمی اور تیسرا میراثی ہے۔ مذکورہ بالا تینوں کرداروں میں میراثی کا اہم کردار ہوتا ہے وہ جب چاہے امیر آدمی کو اُٹھاتا ہے، اپنے ذاتی مفاد کی خاطر لوگوں کو اُس کے جھوٹے قصے سنا کر مقبولیت بڑھاتا ہے جبکہ غریب حکمران کے بارے میں عوام میں گمراہی پھیلاتا دکھائی دیتا ہے کہ ’’یہ خود غریب ہے ، اس کا وژن نہیں ہے، سرکاری امور تو امیر ترین آدمی ہی چلا سکتاہے، سرکاری فائلوں کو پڑھنا اور سمجھنا سائنسدانوں کا کام ہے، یہ بارعب نہیں ہے، اس لیے کوئی سرکاری افسر اس کی بات نہیں سنتا ہوگا وغیرہ وغیرہ ‘‘ اب میراثی کا کام ہے کہ وہ شہر کے امیر ترین لوگوں کی سخاوت کی باتیں کرکے روپے بٹورتا ہے۔ اسے یقین ہے کہ ’’غریب حاکم‘‘ اسے کچھ نہیں دینے والا۔ اور یہ کہاوت بھی شاید انہی کے لیے ہے کہ ’’جیدے گھر دانے اوہدے کملے وی سیانے!‘‘کہ جس کے پاس پیسے ہیں اس کے مرثیے بھی لکھے جاتے ہیں، اُس کے بدترین فیصلوں کو بھی پروموٹ کرکے وقتی فائدے حاصل کیے جاتے ہیں۔ جبکہ اس کے مقابلے میں جس شخص کے پاس پیسے نہ ہوں، غریب آدمی ہو، مگر نیک نیتی سے کام کر رہا، ایماندار ی سے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا ہو تو یقینا ہم لوگ اُس کے نوحے ہی پڑھیں گے؟ کیوں کہ ہماری غلامانہ اجتماعی تربیت ہی ایسی ہو چکی ہے کہ ہم کسی غریب آدمی یا عام آدمی کو اپنے اوپر نہیں دیکھنا چاہتے۔
لہٰذا ہمیں سوچ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، ایسی سوچ مرتب کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں موجود ہر پاکستانی منصب پر بیٹھ سکتا ہے۔ یہی جمہوریت کا حسن ہوتا ہے۔ آج عثمان بزدار ہیں تو کل آپ میں سے کوئی ہو سکتا ہے۔ یہ عوام عہدے ہوتے ہیں ان پر عوام کا ہی حق ہوتا ہے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ ایک اکیلا شخص سارے فیصلے کرتا تھا، ون مین شو نے پنجاب کے اداروں کو برباد کرکے رکھ دیا۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جہاں عمران خان کی جانب سے انہیں با اختیار وزیر اعلیٰ بنایا جا رہا ہے تو دوسری طرف ان کی ٹانگیں بھی کھینچی جا رہی ہیں، بلکہ یوں کہیں ٹانگیں کھنچوائی جارہی ہیں۔کیا عثمان بزدار کا قصور یہ ہے کہ اُن کا نام میڈیا کے دوستوں کے لیے بالکل نیا تھا۔ میڈیا کے لوگ انھیں جانتے ہی نہیں تھے۔ ان کا تعارف موجود نہیں تھا۔ اس لیے بھی چند دوستوں کے لیے یہ مہم کامیاب ہوگئی کہ وہ ایک ڈمی وزیر اعلیٰ ہیں۔اب بھی وزیر اعلیٰ پنجاب کے کام کرنے کے انداز سے زیادہ میڈیا دوسرے معاملات میں الجھا ہوا ہے۔ وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں پر ایسے تنقید کر رہے ہیں جیسے عثمان بزدار اربوں روپے کرپشن کر چکے ہیں اور سابق حکمرانوں کی طرح 56کمپنیاں بنا چکے ہیں جس میں من پسند افراد کی تعیناتیاں کرکے لاکھوں روپے اضافی تنخواہیں دی جارہی ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ سردار عثمان بزدار بڑے کام اجتماعی رائے سے کریں گے جو انھیں کرنے بھی چاہیے۔ لیکن روزمرہ امور میں وہ مکمل طور پر آزاد ہیں۔ ابتدائی چند دن سے واضح ہو رہا ہے کہ وہ ایک مکمل با اختیار وزیر اعلیٰ ہیں۔لیکن ابھی تک پنجاب میں جس طرح تقرر و تبادلے ہوئے ہیں۔ ان سے بھی یہی لگ رہا ہے کہ سردار عثمان بزدار مکمل کمان میں ہیں۔ وہ چیف سیکریٹری اور آئی جی کو آزادانہ احکامات دے رہے ہیں اور ان کے احکامات پر عمل بھی ہو رہا ہے۔ وہ ہر افسر کو حکم دے رہے ہیں اور ہر افسر ان کا حکم مان رہا ہے۔ کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ پہلے کمیٹی سے منظوری لے کر آئیں پھر آپ کی بات مانیں گے۔ اس لیے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ پنجاب میں سردار عثمان بزدار کی حکومت قائم ہو گئی ہے۔ وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئے ہیں۔ گاڑی ان کے کنٹرول میں ہے باقی سب سواریاں گاڑی میں بیٹھی تو ہیں لیکن گاڑی کا کنٹرول سردار عثمان بزدار کے پاس ہی ہے۔
بہرکیف عوام کو یہ سوچ بدلنا ہوگی اور تحریک انصاف کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ میڈیا ایک دو دھاری تلوار ہے۔ یہ جتنا باہر کاٹتا ہے اتنا ہی اندر کاٹتا ہے۔مجھے اُمید ہے کہ میڈیا جو سچ ہے وہی دکھائے گا ، اگر کہیں کرپشن ہو رہی ہے اُسے دکھانا چاہیے۔ اگر کہیں ادارے ٹھیک نہیں ہور ہے اُسے بھی آشکار کرنا چاہیے مجھے یہ بھی اُمید ہے کہ چند دن میں سردار عثمان بزدار کوئی ڈمی یا ریموٹ کنٹرول وزیر اعلیٰ نہیں لگیں گے۔ جس طرح کہتے ہیں ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔ اسی طرح سردار عثمان بزدار کے پہلے چند دن ہی بتا رہے ہیں کہ جوان میں دم ہے۔ مجھے وہ ابھی تک کوئی ریموٹ کنٹرول یا ڈمی وزیر اعلیٰ نظر نہیں آرہے۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ ان کے ابتدائی ایام نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ کام زیادہ اور باتیں کم کرنے والے سیاستدان ثابت ہوں گے۔پس اس سوچ ’’جیدے گھر دانے اوہدے کملے وی سیانے!‘‘ کوختم کرنے اور قومی مفاد میں کام کرنے ضرورت ہے۔ تبھی ملک آگے بڑھے گا ، کرپشن ختم ہوگی اور ملکی معیشت مضبوط ہوگی۔