ڈاکٹر خلیل طوقار کے اعزاز میں ظہرانہ

برادرم نور الہدی کو فون آیا کہ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے زیر اہتمام ترکی میں استنبول یونیورسٹی کے اردو کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر خلیل طوقار کے اعزاز میں ظہرانہ کا اہتمام کیا گیا جس میں میزبان غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید عامر جعفری ہوں گی جبکہ دیگر مہمانان میں معروف شاعر اور دانشور شعیب بن عزیز، دانشور سجاد میر، امجد اسلام امجد,عزیز ظفر آزاد, پروفیسر رضوان الحق , رئوف طاہر اور شہر کے کچھ اور ادبی حلقوں سے جڑے لوگ شامل ہوں گے۔ آپ بھی اس میں اپنی شرکت یقینی بنائیے گا ۔ڈاکٹر خلیل طوقارصاحب کی ویسے تو کئی خوبیاں ہیں مگر جناب نے اردو کے مستقبل کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھ رکھی ہے ۔انہیں اردو سے محبت ہے اور وہ پنجابی زبان بھی بخوبی سمجھ لیتے ہیں۔ ان کی محفل میں شرکت کی دعوت ملنا اعزاز جانا اورہم تو ویسے بھی ٹھہرے لاہور کے دیوانے ,لاہور سے کسی کوے کے ہاتھ بھی پیغام ملے تو ہم لاہور کو چل پڑتے ہیں اور یہ تو پاکستان کے دوست ملک ترکی سے آنے والے معزز مہمان کے ساتھ بیٹھک کا دعوت نامہ تھا ۔بچپن سے ترکی سے دوستی اور محبت کی کہانیاں سن کے ہم نے جوانی میں قدم رکھا اور دل میں ترک خلافت اس کے دنیا پہ اثرات اور پھر اس کے زوالکے اسباب کی کہانی چلتی رہی۔ ظہرانے کا وقت چونکہ دوپہر کا تھا اور اسی وقت لاہور کے تعلیمی اداروں میں طلبا کو چھٹی کی وجہ سے سڑکوں پہ بے پناہ رش ہوجاتا ہے ۔لوگ اتنی جلدی میں ہوتے ہیں کہ سیدھی سڑک پہ چلتے چلتے رستے بند کر لیتے ہیں۔بس اسی رش کی وجہ سے ہم کچھ دیر سے وہاں پہنچے اورجیسے ہی ہال میں داخل ہوئے سب سے پہلی نظر اردو ادب کے درخشندہ ستاروں یعنی امجد اسلام امجد, شعیب بن عزیز, ممتاز ٹی وی اینکر سجاد میر,نوائے وقت میں عرصہ دراز سے لکھنے والے اور ارود تحریک کے صدر عزیز ظفر آزاد پہ پڑی۔ڈاکٹر خلیل طوقار بھی میز کی ایک طرف بیٹھے تھے ان کے چہرے پر سنجیدگی اور سکون تھا اور دھیان پاکستانی دوستوں کی باتوں کی طرف تھا ۔کھیر کی ٹھوٹھاں ہاتھ میں پکڑے شعیب صاحب اور امجد اسلام امجد نے ماحول کو بہت خوشگوار بنا دیا تھا صاحبان علم و دانش کے برجستہ فقروں نے ظہرانے میں شریک سبھی کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیری ہوئی تھی ۔شعیب بن عزیز نے کچھ عرصہ پہلے کیلاش کا سفر جو ہم نے ڈسکور پاکستان کے پلیٹ فارم سے ایک ساتھ کیا تھا اسے خوبصورت الفاظ میں یاد کیا اور اس سفر کی اہمیت پہ روشنی ڈالی,امجد اسلام امجد بڑی خوبصورتی سے پنجابی زبان میں باتیں کر رہے تھے اور ان کے ہر لفظ سے انکے بڑے پن اور ادب و علمی فہم کا اظہار ہو رہا تھا۔مزاح میں بھی انکے الفاظ سے خوشبو آرہی تھی۔مشاعروں کی سٹیج پر وہ جتنے اچھے اور باوقار دیکھا تھا اس نجی بیٹھک میں وہ اس سے بھی زیادہ پر خلوص اور باوقار نظر آئے۔ امجد اسلام امجد نے یوں مل بیٹھنے پہ اشعار بھی پڑھے اور شعیب صاحب نے پیشکش کی کہ ہر ماہ جی آر او میں ایسی ایک محفل سجائی جانی چاہیے جس میں شاعر,ادیب اور کالم نگار مل بیٹھیں ۔ہلکے پھلکے انداز میں گپ شپ ہو ,پرانی یادیں تازہ ہوں اور کچھ نئے لکھنے والوں کو سیکھنے کا موقع ملے۔ہم نے موقع کا فائدہ اٹھایا اورشعیب بن عزیز,امجد اسلام امجد,سجاد میر اور ڈاکٹر خلیل طوقار کو اپنی کتاب ’’کاسہء چشم پیش کی۔کچھ لوگوں کو جلد جانا تھا وہ نکل گئے تو عزیز ظفر آزاد اور پروفیسر رضوان الحق کیساتھ اردو کے فروغ پہ دیر تک گفتگو چلتی رہی۔ عزیز ظفر آزاد نے بتایا کہ مرحوم مجید نظامی کس اعلی ظرف کے انسان تھے کہ ایک بار انہوں نے کسی اور اخبار میں نظامی صاحب کیخلاف کالم لکھا ’’مجید نظامی قائداعظم کے حضور‘‘ جس پہ نظامی صاحب نے ان سے ملاقات کی اور کہا کہ کاش یہ سوال ان سے قائد خود کرتے ۔پھر نظامی صاحب نے ہفتہ وار نوائے وقت میں لکھنے کو کہا جو آج تک چل رہا ہے ۔پروفیسر رضوان الحق جو حضرت علامہ اقبال کے شیدائی لگتے ہیں۔ انہوں نے بڑی محبت سے مستقبل میں مل کے اردو, نوجوانوں کی تربیت اور پیغام اقبالؒ کو عام کرنے پہ زور دیا۔ ڈاکٹر خلیل طوقار اردو اور پاکستان سے محبت کی بات کرتے رہے اور اس موقع پر ڈاکٹر خلیل طوقار نے اس ظہرانے اس میں شریک احباب کی شرکت پہ خوشی کا اظہار کیا اور غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کی تعلیمی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ سید عامر جعفری کی قیادت میں پاکستان کے دیہاتوں کو اپنے 700 سکولوں کے ذریعے علم کے نور سے آراستہ کر رہا ہے۔ ڈاکٹر خلیل طوقار نے غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے سپیشل بچوں اور ہندو بچوں کیلئے خصوصی پراجیکٹس کی بھی تعریف کی اور ان پراجیکٹس کی توسیع کو دور حاضر کی ضرورت قرار دیا۔ شعیب بن عزیز، سجاد میر، امجد اسلام امجد، اور روف طاہر نے بھی نے بالخصوص دیہاتوں کے یتیم اور علم سے دور بچوں کو تعلیم تک رسائی دینے اور تعلیمی سہولیات مہیا کرنے کے عمل کی بھی تعریف کی۔ اس موقع پر ڈاکٹر خلیل طوقار نے سید عامر جعفری کو ترکی کے پلیٹ فارم سے اپنے ہر ممکن تعاون کی بھی یقین دہانی کروائی۔ پاکستان اور ترکی اس وقت عالم اسلام کے طاقتور ترین ملک ہیں بلکہ یہ دونوں ہر مظلوم مسلم کیلئے آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔دونوں ملکوں کے عوام کے دلوں میں ایک دوسرے کیلئے احترام اور محبت کے جذبات بھی ہمیشہ سے رہے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن