اربوں، کھربوں ملتے، جانے بلوچستان کا پیسہ کہاں جاتا ہے: جسٹس گلزار

کوئٹہ (آن لائن) چیف جسٹس گلزار احمد نے بلوچستان میں سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت زار پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبے کو اربوں کھربوں کا بجٹ ملتا ہے لیکن 80فیصد بجٹ کھا لیا جاتا ہے۔ بلوچستان کا پیسہ پتہ نہیں کہاں استعمال ہوتا ہے۔ اس کی اجازت نہیں دیںگے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ پیسہ سانس کے ساتھ پکڑ کے رکھیں اور کسی کو لوٹنے نہ دیں۔ صوبے کے جتنے سکول گنوائے وہاں باڑے بنے ہوئے ہیں۔ وہاں جاکر ایک ایک  سکول چیک کریں مگر کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ محکمہ تعلیم کی جانب سے جن فنڈز کا ذکر ہے اس میں تو سارے سکول فائیو سٹار بن سکتے ہیں۔ اگر افسر  بتا کر جائیں گے تو طلباء اساتذہ اور ٹیبل سب موجود ہونگے بعد میں پھر کچھ نہیں ہوگا۔ یہ ریمارکس چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس گلزار احمد، جسٹس فیصل عرب اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں بلوچستان کے سرکاری سکولوںکی حالت زار سے متعلق کیس کی سماعت کے موقع پر دئیے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ زمینی حقائق بالکل برعکس ہیں۔ ہمارا مقصد کرپشن اور غلط استعمال کو روکنا ہے۔ انگریزی اعداد وشمار سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ حکومت کی جانب سے کیا اقدامات کئے جارہے ہیں اور مستقبل میں اس  کیلئے کیا لائحہ عمل طے کیاجائے گا۔ قانون کی اپ گریڈیشن الگ کام نتائج  کی بنیاد پر ہی مثبت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ مگر یہاں بدقسمتی سے تعلیم پر تجربے کئے جا رہے ہیں۔ پہلے ڈی ای او تک تھا اب ڈی سی کو چیئرمین بنادیا گیا۔ کیا ایجوکیشن گروپ کا افسر محکمہ کوکیوں نہیں چلا سکتا، ہم کسی صورت کسی کو کھانے پینے کی اجازت نہیں دینگے بلکہ اس کی آڈٹ کرائیںگے۔ سکولوں میں مٹی کے گھروندوں میں گائے بھینسیں بند ہیں۔ تعلیم نہیں ہوتی سیکرٹری ایجوکیشن شیرخان بازئی نے کہاکہ اگر 12 ہزار سکولوں کو چیک کیا تو سارا کام رہ جائیگا۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ بغیر اطلاع کے جائیں تو پتہ چل جائے گا کہ کیا ہو رہا ہے۔ سندھ میں ٹیچر رکشے چلارہے ہیں ان کو پاکستان کے ہجے بھی نہیں آتے، چیف جسٹس نے کہا  یہ پیسہ نیچے تک جا رہا ہے مگر کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں، جسٹس اعجاز الا حسن نے ریمارکس دئیے کہ جب تک تبدیلی ہوگی تو نیچے بیٹھے لوگوں کا دھندا جاری رہے گا۔ انہوں نے استفسار کیاکہ پورے صوبے میں ایک ہی نصاب تعلیم ہے جس پر سیکرٹری ثانوی تعلیم نے بتایاکہ ہمارا ایک ہی نصاب تعلیم ہے جس کو باضابطہ چیک کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ صوبے کا سیکرٹری6 ماہ بعد تبدیل ہو جائیگا۔ بچوں تعلیم اور یتیموں کے پیسے کھانا گناہ کبیرہ ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ سکولوں میں فرنیچر کی کیا  صورتحال ہے جبکہ جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیاکہ صوبے کے 60 ہزار بچوں نے سائنس میں امتحان دیا ہے، جس پر سیکرٹری ثانوی تعلیم شیر خان بازئی نے کہاکہ ہم نے اس کے لئے کلسٹر بجٹ دیا یے اور تمام سہولیات فراہم کررہے ہیں۔ صوبے کے 460 ہائی سکولوں میں سائنس لیبارٹری موجود ہیںبلکہ کرونا وائرس سے بچائو کیلئے ایس او پیز پر عملدرآمد کرا رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ بلوچستان میں14ہزار سکولوں پر کتنے بلین خرچ ہوئے۔ رپورٹ میں جن فنڈز کا ذکر ہے اس میں تو سارے سکول فائیو سٹار بن سکتے ہیں۔ ہم نے اس کو دیکھا پانچ کروڑ سے زائد فنڈز ایک سکول پر آتا ہے جس پر سیکرٹری ثانوی تعلیم نے بتایاکہ ایسا نہیں ہے اس میں صرف 4 ارب ترقیاتی کاموں کا بجٹ ہے۔ صوبے بھر میں 46 ہزار اساتذہ ہیں جنھیں تنخواہیں دینی پڑتی ہیں جس پر استفسار کیاکہ کوئی پیمانہ ہے کس کو کیسے ترقیاتی فنڈ دیئے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ خیبر پی کے میں 2 بچوں پر 8 اساتذہ تھے جو  درست اقدام نہیں ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیاکہ کوئی نیا مڈل یا ہائی سکول نہیں بنایا نہ ہی ان کو اپ گریڈ کیا گیا۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...