اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ نیوز رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ) وزیراعظم عمران خان سے چیئرمین افغان قومی مفاہمتی کونسل عبداللہ عبداللہ نے ملاقات کی۔ اور افغان امن عمل سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا۔ دو طرفہ تعلقات اور خطے کی صورتحال پر بھی بات چیت کی گئی۔ افغان مفاہمتی عمل میں پاکستان کے کردار پر بھی گفتگو کی گئی۔ وزیراعظم نے افغان امن عمل کے کامیاب نتائج کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ افغان تنازعہ کا فوجی حل نہیں۔ سیاسی حل آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔ خوشی ہے عالمی برادری نے ان کا مؤقف تسلیم کیا۔ دنیا نے افغان امن عمل کو آسان بنانے میں پاکستان کے کردار کو سراہا۔ امن کی کوششوں کیلئے امریکہ طالبان امن معاہدہ اہم قدم تھا۔ اعلامیہ کے مطابق وزیراعظم نے دوحہ میں انٹرا افغان مذاکرات کے آغاز کو سراہا۔ وزیراعظم نے امید ظاہر کی افغان قیادت تاریخی موقع کا فائدہ اٹھائے گی۔ امید ہے افغان قیادت سیاسی تصفیہ کیلئے مل کر کام کرے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ افغان تنازعہ حل ہونے کے بعد افغانستان کی معاشی ترقی میں حمایت جاری رکھیں گے۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے کہا ہے کہ افغان سرزمین ہمسایہ ممالک کیخلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے انسٹی ٹیوٹ آف سٹرٹیجک سٹڈیز اسلام آباد میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغان عوام کی طرف سے گرمجوشی اور دوستی کا پیغام لایا ہوں۔ دورہ پاکستان کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان نئے مذاکراتی دور کا آغاز کرنا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان برادرانہ تعلقات ہیں۔ ان کے عوام کے درمیان بہترین تعلقات کا خواہاں ہوں۔ افغانستان میں امن سے پاکستان میں امن ہوگا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے امن مذاکرات سے متعلق گفتگو ہوئی۔ ہمیں آگے بڑھ کر تجارت، کاروبار اور عوامی رابطوں کو فروغ دینا ہوگا۔ معیشت کی بہتری کے لیے دونوں ممالک میں آزادانہ تجارت کو فروغ دینا ضروری ہے۔ دونوں ممالک کو ایک ہی وقت میں کرونا، معیشت، دہشت گردی اور مختلف چیلنجز کا سامنا ہے۔ چیئرمین مفاہمتی کونسل نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے ہم ساتھ بیٹھ کر نتیجہ خیز مذاکرات سے ترقی کی طرف بڑھیں۔ افغان امن عمل میں پاکستان کے اہم کردار سے کوئی انکار نہیں۔ افغان عوام گزشتہ 19 سال سے امن کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ قیام امن کے لیے ہمیں دیانت داری سے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ اپنے عوام کی امنگوں کے مطابق ہمیں نئے مستقبل کی جانب دیکھنا ہے۔ کابل اور اسلام آباد کو تمام معاملات میں ایک دوسرے کو معاونت فراہم کرنا ہوگی۔ عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ یہ باہمی تعلقات میں گرم جوشی کا ایک نیا دور ہے۔ جس سے ہم نے موقع ضائع کیے بغیر فائدہ اٹھانا ہے۔ افغان عوام اپنے ملک میں دہشت گردوں کے قدموں کی موجودگی نہیں چاہتے۔ جو ہمارے ہمسایوں کو نقصان پہنچائیں۔ افغان طالبان اور افغان قومی حکومت کے درمیان مذاکرات کا آغاز ایک سنہری موقع ہے۔ ہمیں اس تاریخی موقع کو ضائع نہیں ہونے دینا ہے۔ عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ افغانستان میں امن پاکستان میں موجود استحکام کو مزید تقویت فراہم کرے گا۔ لیکن اگر افغانستان میں تشدد کم نہ ہوا تو افغان امن عمل میں پیشرفت کو یقینی بنانا مشکل ہوگا۔ عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ پاکستان نے افغان مفاہمتی عمل میں سہولت کاری کرکے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ دونوں ممالک نے دہشتگرد گروہوں کا سامنا کرتے ہوئے بھاری قیمت ادا کی ہے جو اب بھی بگاڑ پیدا کرنے والے عناصر کے طور پر فعال ہیں۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان افغانستان کا سرپرست نہیں دوست بننا چاہتا ہے۔ یہ تبدیلی کا نمونہ ہے۔ اور اگر ہمیں امن کے ساتھ رہ کر مشترکہ مستقبل تعمیر کرنا ہے تو یہ اس بات کی پہچان کا نیا احساس ہے۔ پاکستان کا افغان عوام کیلئے واضح پیغام ہے کہ ہمارا کوئی پسندیدہ نہیں اور نہ ہم آپ کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنا چاہتے ہیں۔ ہم افغانستان کی خود مختاری‘ سلامتی اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتے ہیں اور کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس بات پر یقین ہے کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ صرف اور صرف افغان ہی کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بین الافغان مذاکرات اور بات چیت کے نتیجے میں جو بھی اتفاق رائے ہوگا ہم پاکستانی عوام افغانستان کے عوام کی خواہش کو قبول کریں گے اور یہ ہمارے لئے اہم ہے۔ سابق صدر ایوب خان کی کتاب کے نام کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے افغان رہنما کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کے سرپرست نہیں دوست بننا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عبداللہ عبداللہ زمینی حقائق‘ کمزوریوں‘ رکاوٹوں اور خدشات کو پوری طرح سمجھتے ہیں لیکن موجود صورتحال میں مفاہمتی کونسل کے چیئرمین کی حیثیت سے ان کے کیریئر کا سب سے مشکل کام ہے۔ یہ انتہائی اہم ہے کہ ہم براہ راست بات کریں۔ خوش اسلوبی سے دوستانہ انداز میں خلوص کے ساتھ تبادلہ خیال اور رابطے کریں۔ انہوں نے یاد دلایا کہ وزیر خارجہ کا منصب سنبھالنے کے بعد جب امریکی سیکرٹری سٹیٹ مائیک پومپیو اسلام آباد کے دورے پر آئے تو ملاقات میں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ واشنگٹن کا راستہ کابل سے ہوکر جاتا ہے لیکن ہم تو کابل سے بھی آگے کا سفر کر چکے ہیں۔ یہ معاہدہ اور یہ حقیقت کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا آسان نہیں تھا لیکن یہ ہوا۔ علاقائی سمجھوتہ آستان نہیں تھا لیکن ہوا۔ 9 اگست کو لویہ جرگہ میں کئے گئے فیصلے آسان نہیں تھے لیکن ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم آج جہاں پہنچے ہیں یہ راتوں رات نہیں ہو گیا بلکہ یہ تبدیلی وقت کے ساتھ ساتھ آئی ہے۔ ہم نے اپنے تجربات اپنی غلطیوں سے سیکھا۔ آج ایک نیا بین الاقوامی ماحول ہے جو سیاسی تصفیے کا حامی ہے۔ آج امن عمل کو علاقائی حمایت حاصل ہے اور یہ بغیر علاقائی حمایت کے آگے بڑھ بھی نہیں سکتا۔ آج اس بات کا بڑا واضح احساس پاکستان اور افغانستان دونوں میں موجود ہے کہ اگر ہم اپنے لئے ایک خوشحال مستقبل چاہتے ہیں تو ہمیں امن کی ضرورت ہے اور یہ احساس ہم پر غالب ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ بہت سے عناصر نے جنگی میعشت سے فائدہ اٹھایا ہے۔ تمام فریقین کو ایک ساتھ ملکر پرامن، خوشحال اور مستحکم افغانستان کیلئے کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کو عملی شکل میں دیکھنا ہے‘ باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے‘ افغان مہاجرین کو باعزت طریقے سے واپس بھیجنا ہے تو امن ضروری ہے۔ عبداللہ عبداللہ نے چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی سے بھی ملاقات کی۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں پائیدار امن کی کوششوں کی حمایت جاری رکھے گا۔ ہمیں امن و سلامتی اور ترقی کیلئے مل کر کام کرنا ہوگا۔ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بڑی قربانیاں دی ہیں۔ دہشت گردی مشترکہ چیلنج ہے اور ملکر اس کا مقابلہ کرنا ہوگا۔