سخاوت اور حاتم طائی کی مثال 

Sep 30, 2020

مکرمی! سورۃ ’’محمدؐ‘‘ میں تو فرما دیا گیا کہ تم اگر اللہ کی راہ میں مال خرچ نہیں کرو گے اور بخل سے کام لو گے تو وہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا۔ اللہ کے نزدیک بخل کا نتیجہ اشخاص اور اقوام دونوں کے لئے تباہی ہے۔ ’’کشف المحجوب‘‘ میں حضرت علی ہجویری ؒ لکھتے کہ حضورِ اکرمؐ نے فرمایا: ’’سخی آدمی بہشت سے قریب اور دوزخ سے دور ہے اور بخیل آدمی دوزخ کے نزدیک اور بہت سے دور ہے۔‘‘ امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ حضورؐ کا ارشاد ہے: ’’دو اخلاق ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں ، ان میں ایک سخاوت ہے اور دوسرا نیک خلقی۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں ایک ’’غنی‘‘ ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ وہ بے نیاز ، بے پرواہ اور غیر محتاج ہے ، یا دوسرے معنی میں ’’صمد‘‘ ہے۔ قرآن حکیم کی مختلف سورتوں میں اللہ تعالیٰ کی صفت غنی بیان ہوئی ہے۔ (حوالہ: ’’سورۃ ’’بقرۃ‘‘ سورۃ ’’آلِ عمران‘‘، سورۃ ’’نمل‘‘، سورۃ ’’زمر‘‘ و دیگر)  سخاوت کے تناظر میں حاتم طائی کے ذکر کے بغیر بات مکمل نہیں ہوتی ، جو اپنے وقت کا نہایت بہادر و دلیر شخص تھا اور ساتھ ہی ساتھ ایک عظیم اور بے مثال سخی بھی۔ 
تاریخ میں اس کا یہ واقعہ بہت مشہور ہے:  کسی نے حاتم طائی سے پوچھا: ’’کیا کبھی ایسا ہوا کہ کوئی شخص جو دوسخا میں آپ پر سبقت لے گیا ہو؟‘‘ حاتم طائی نے جواب دیا: ہاں ، ایک مرتبہ مجھے قبیلۂ طے کے ایک یتیم کے گھر ٹھہرنے کا موقع ملا۔ اس کے پاس دس بکریاں تھیں۔ اس نے میری مہمانی کی خاطر ایک بکری ذبح کی اور دستر خوان پر میرے آگے اس کا مغز پیش کیا۔ مجھے وہ بہت لذیذ لگا اور میں نے کھاتے ہی کہا: ’’واللہ یہ کس قدر لذیذ ہے۔‘‘ یتیم لڑکے نے جب میری زبان سے یہ الفاظ سنے تو اس نے ایک ایک کر کے ساری بکریوں کو ذبح کر کے ان کا مغز میرے آگے پیش کر دیا۔ مجھے اس کا علم نہیں تھا ، کہ میری خاطر اپنی ساری بکریاں ذبح کر دی ہیں۔ جب میں واپسی کے لیے اس کے گھر سے نکلا تو میری نگاہ گھر کے اردگرد پھیلے خون پر پڑی۔ میں نے اس یتیم سے مخاطب ہو کر کہا: ’’تم نے ان ساری بکریوں کو کیوں ذبح کر ڈالا؟‘‘ وہ کہنے لگا: ’’سبحان اللہ ! آپ جیسے میرے مہمان کو کوئی ایسی چیز اچھی لگے جو میرے قبضے میں ہو اور میں بخل سے کام لے کر آپ سے اسے روک رکھوں؟ یہ تو عربوں کی شان میں ایک گستاخی اور عیب ہو گا!‘‘حاتم طائی سے پوچھا گیا:  ’’پھر آپ نے بطورِ عوض اس یتیم لڑکے کو کیا دیا؟‘‘ حاتم طائی نے کہا:’’میں نے اس کو تین سو سرخ اونٹنیاں اور پانچ سو بکریاں دیں۔‘‘ 
برتراز اندیشۂ سود و زیاں ہے زندگی   ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی 
(محمد اسلم چودھری ابدالین سوسائٹی، جوہر ٹائون لاہور) 

مزیدخبریں