میاں نواز شریف جب سے وزارتِ عظمیٰ سے معزول ہوئے ہیں، ووٹ کی عزت کا خیال انھیں شدومد سے آ رہا ہے۔ پاکستان کے علاوہ لندن میں بیٹھ کر بھی ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا ورد کرتے رہتے ہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ ووٹ کو عزت کون دیگا؟ کیا حکمرانوں نے عوام کے ووٹ کی پاسداری کی۔ میاں نواز شریف تین بار وزیراعظم کے عہدہ جلیلہ پر فائز ہوئے۔ اس دوران انھوں نے عوام کی بہبود کا خیال رکھا؟ خدا کے نزدیک سب سے زیادہ واجب العزت وہ ہے جو سب سے زیادہ فرائض شناس ہے۔ دنیاوی عزت و اکرام سے انسان غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ سورہ الفجر کی آیت 18-17-16 کا ترجمہ ہے۔ ’’لیکن آدمی جب اسے اس کا رب آزمائے کہ اس کو جاہ اور نعمت دے تو کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دی۔ اگر آزمائے تو کہتا ہے، میرے رب نے مجھے خوار کیا۔ یوں نہیں بلکہ یتیم کی عزت نہیں کرتے اور میراث کا مال ہپ ہپ کھاتے ہو اور مال کی نہایت محبت رکھتے ہو‘‘ ان آیات کو مدنظر رکھ کر میاں نواز شریف کو سوچنا چاہیے کہ حکمرانی کے دوران ان کے اعمال کیسے رہے اگر انھوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا تو پھر وہ اس صورت حال سے کیوں گزر رہے ہیں۔ سوچتے تو وہ ضرور ہونگے۔ لندن میں انھیں فرصت کے لمحات میسر ہیں۔ اس پر غور و فکر ضرور کریں۔
رانا احتشام ربانی اپنی کتاب ’’شعور کی سچائی‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’ہر فرد کے ووٹ کی ایک ہی جیسی اہمیت اور قدر ہوتی ہے۔ غریب ہو یا امیر، کمزور ہو یا طاقتور۔ ترقی یافتہ ملکوں میں روپے پیسے کی خاطر ووٹ دینے والے کی نہایت برا سمجھا جاتا ہے۔ ہر ایک کا ووٹ گنتی میں شمار ہوتا ہے۔ لہٰذا ایک ایک ووٹ اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرتا ہے۔ یہ انسانی زندگی کا واحد شعبہ ہے جس میں ایک شخص یا ووٹر کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ کسی امیدوار کو منتخب کرے یا اسے نمائندگی سے محروم رکھے۔ اگر عوام الیکشن میں ایسے لوگوں کو ایک، دو یا تین بار منتخب کر لیتی ہے، جو ان کی بھلائی اور فلاح و بہبود کیلئے کام نہیں کرتے تو ان کی وجہ سے لوگوں کی زندگی ہمیشہ مسائل سے دوچار رہتی ہے۔ بھوک، تنگ اور افلاس کا سامنا رہتا ہے۔ عوام مہنگائی کی چکی میں پِس جاتے ہیں۔ کمزور اور غلط فیصلے برائی کی صورت بن جاتے ہیں۔ زندگی میں انسانوں سے جس طرح دوسرے گناہ سرزد ہوتے ہیں، کیا ان فیصلوں کو بھی گناہ تصور کیا جاسکتا ہے؟ جو قوم اچھے فیصلے کرتی ہے، وہ دنیا میں کامیاب زندگی گزارتی ہے‘‘ میاں نواز شریف اپنے انتخابی منشور میں جو دعوے کرتے رہے کیا ان پر عمل بھی کیا؟ آئیے دیکھتے ہیں۔ 25 ا گست 1993ء میں میاں نواز شریف نے اپنے منشور کا اعلان کیا (جو اس سے قبل وزیراعظم رہ چکے تھے) انھوں نے کہا ’’میری حکومت نے 1990-91ء میں ایسے موثر قدم اٹھائے تھے کہ پاکستان 21ویں صدی میں باوقار انداز میں داخل ہو سکے لیکن بعض عناصر پاکستان کی ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔ انھوں نے راہ میں روڑے اٹکانا شروع کر دئیے اور پانچ برس کیلئے منتخب حکومت کو اپنا نصف عرصہ پورا نہیں کرنے دیا گیا۔ مجھے ایک ایسا مینڈیٹ درکار ہے کہ میں اسمبلی میں دو تہائی اکثریت سے جاؤں اور اپنے اس منشور کے مطابق تاریخی مشن پورا کر سکوں‘‘ عوام نے میاں نواز شریف کو مینڈیٹ دے دیا۔ لیکن کیا وہ عوام کے اعتماد پر پورا اترے اور اپنے تاریخی مشن کو پورا کیا؟ منشور میں کہا گیا ’’غربت کے ساتھ جہاد کیا جائیگا‘‘ جہاد ضرور کیا مگر عوام کیلئے نہیں، اپنی اور رفقا کی غربت کو ختم کیا۔ ایک اور جگہ لکھا گیا ’’سیاست دانوں، حکمرانوں اور سرکاری افسروں کی کرپشن اور بدعنوانی کی روک تھام کیلئے قانون سازی اور کرپشن کے خاتمے کیلئے جوڈیشنل ٹریبونل کا قیام‘‘ مسلم لیگ (ن) نے کرپشن کیا ختم کرنی تھی۔ وزیراعظم اور بعض وزرا پر کرپشن کے الزام لگ گئے۔ نتیجہ یہ کہ میاں نواز شریف تیسری بار بھی اپنے وزارتِ عظمیٰ کی مدت پوری نہ کر سکے۔ وزیراعظم عمران خان سادگی کا پرچار کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد بعض اصلاحات بھی کیں۔ مسلم لیگ (ن) بھی سادگی کے فروغ کی باتیں کیا کرتی تھی۔ انکے منشور کا حصہ تھا کہ ’’پاکستان مسلم لیگ (ن) پُر تعیش اخراجات کو کم کر کے سادگی کے راستے کو اختیار کرنے پر زور دیتی ہے‘‘ ء وہ دور حکمرانی میں کس قدر سادگی اختیار کر پائے۔ عوام کو سب معلوم ہے۔ انھوں نے شاہانہ انداز اختیار کیے رکھا ۔ اپنی اور اولاد کی دولت میں بے پناہ اضافہ کرتے گئے۔ ہر سیاسی جماعت کا دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ عوام اور معاشرے کی خدمت کریگی اور ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کیلئے اپنے پیش کردہ بہترین منشور پر عمل کرے گی لیکن برسراقتدار آنے پر یہ جماعتیں اپنے منشور کو بھول جاتی ہیں اور اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتی ہیں۔