پاکستان کا شمار دنیا میں دودھ پیدا کرنیوالے ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر آتا ہے .ایک اندازے کے مطابق تقریبا 80 فیصد دودھ پاکستان کے دیہات میں پیدا ہوتا ہیں .جبکہ دودھ کا سب سے زیادہ استعمال شہری آبادی میں ہوتا ہے کیونکہ وہاں پر گنجان آبادی ہوتی ہے.اس لئے دودھ کی پیداوار اور خرید و فروخت میں بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے .جیسا کہ دودھ کی پیداوار کا کمزور نظام, دودھ کی ترسیل, صفائی کا انتظام, وسائل کی کمی, کوالٹی کو یقینی بنانا ,غیر تربیت یافتہ افرادی قوت اور موسمی اثرات وغیرہ .پاکستان میں کیوں کہ دودھ اور دودھ سے بنی اشیاء بکثرت استعمال کی جاتی ہیں. اس لیے پاکستان میں سب سے بڑا چیلنج دودھ میں ملاوٹ کا قلع قمع کرنا ہے.دودھ اور دودھ سے بنی اشیاء کی ڈیمانڈ اس لعنت کو جنم دیتی ہے. اور منافع خور اپنی جیب گرم کرنے کیلئے لوگوں کی جان سے کھیلتے ہیں. بدقسمتی سے پاکستان میں خرید و فروخت کا نظام منظم نہیں ہے- جس کی وجہ سے دودھ کے معیار کو یقینی بنانا بہت مشکل عمل ہے.اور عمومی طور پر ملنے والا کھلا دودھ ملاوٹ زدہ ہونے کی وجہ سے انسانی صحت کیلئے محفوظ نہیں.کیونکہ دودھ ایک جلدی خراب ہونیوالی چیز ہے.منافع خور دودھ کو محفوظ بنانے کیلئے اور دودھ کی مقدار بڑھانے کیلئے اس میں مختلف کیمیکلز جیسا کہ یوریا ,صرف اور مضر صحت کیمیکلز شامل کر دیتے ہیں.اور اگر اس لعنت پر قابونہ پایا گیاتو عوام کی صحت اور ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے.عوام کی صحت اور تندرستی کو یقینی بنانے کیلئے قائم شدہ ایک اہم ادارہ پنجاب فوڈ اتھارٹی عوام کی خدمت میں سرگرم عمل ہے.عوام کو محفوظ خوراک کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے اور عوام کی صحت تندرستی کو یقینی بنانے کیلئے اس ادارے کی خدمات ناقابل فراموش ہیں.بالخصوص عوام کو خالص دودھ اور دودھ سے بنی اشیاء کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے انکے خدمات بہت نمایاں ہیں. جن میں ملاوٹ شدہ دودھ بیچنے والی دکانوں پر چھاپے مارنا, انکے خلاف جرمانہ عائد کرنا, دکانیں سیل کرناشامل ہے.ان سب خدمات سے بڑھ کر پنجاب فوڈ اتھارٹی نے حال ہی میں ایک اہم قدم اٹھایا ہے.جس میں لاہور کے عوام کو صاف ستھرا اور خالص دودھ کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے موبائل ٹیسٹنگ لیبارٹریز کا افتتاح کیا گیا ہے.یہ چھ موبائل لباٹری لاہور کے داخلی راستوں پر تعینات ہیں اور شہر میں داخل ہونیوالے دودھ کی ٹیسٹنگ کرتی ہیں. صاف دودھ کو لاہور میں انٹری کی اجازت ملتی ہے جبکہ ملاوٹ شدہ دودھ کو تلف کر دیا جاتا ہے.اسکے ساتھ ہی دودھ کی ٹیسٹنگ کیلئے موٹر سائیکل اسکواڈ بھی قائم کیا گیا ہے.تاکہ تنگ گلیوں اور چھوٹی دکانوں پر بھی دودھ کے معیار کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس وقت یہ موبائل ٹیسٹنگ لیبارٹری صرف لاہور میں کام کر رہی ہیں لیکن جلد ہی ان شاء اللہ پنجاب کے دیگر اضلاع‘ ڈویژن بھی اس سروس کا آغاز کر دیا جائیگا.اس موبائل ٹیسٹنگ سروس کا افتتاح کرتے ہوئے وزیر اعلی پنجاب جناب عثمان بزدار نے کہا ہے کہ اب لاہور میں ملاوٹ شدہ دودھ کی انٹری مکمل طور پر بند کر دی جائیگی.یہ قدم عوام کو معیاری اشیاء کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے اٹھایا گیا ہے. اور جلد ہی اس طرح کی سروس پنجاب کے دیگر اضلاع اور ڈویڑن میں بھی فراہم کی جائیگی.ڈائریکٹر جنرل پنجاب فوڈ اتھارٹی عرفان نواز میمن نے وزیر اعلی پنجاب کو ان موبائل ملک ٹیسٹنگ لیبارٹریز کی کارکردگی کے متعلق بریفنگ دی.اور بتایا کہ کہ دودھ میں ملاوٹ کی روک تھام کیلئے پنجاب فوڈ اتھارٹی نے قصور روڈ پر ایک چوکی قائم کی ہے جس میں حال ہی میں 5200 لیٹر آلودہ اور مضر صحت دودھ کو چیک کرنے کے بعد تلف کیا ہے. پنجاب کی عوام پنجاب فوڈ اتھارٹی کی کارکردگی پر مطمئن ہیں.اور وزیر اعلی پنجاب کے اس اقدام کو سراہتے ہیں.پنجاب فوڈ اتھارٹی کے منعقد کردہ ایک سروے کے مطابق کے مطابق عوام تھیلی میں پیک محفوظ دودھ کی فراہمی کیحق میں ہیں.اور اس کیلئے چند روپے اضافی قیمت بھی دینے کو تیار ہیں.پنجاب فوڈ اتھارٹی کا ویژن ہے کہ ان شاء اللہ 2022 تک کھلیدودھ کی خرید و فروخت پر مکمل پابندی عائد کی جائیگی.اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک اور زراعت کے متعین کردہ اصولوں کے مطابق دودھ کی پیداوار سے لے کر دودھ کی ترسیل اور دودھ کے استعمال تک میں اس کے معیار کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کیے جائیں گے.
دودھ میں ملاوٹ کی روک تھام کے اقدامات
Sep 30, 2020