’’سانسیں گننا‘‘ محاورہ ہے جو کسی بھی جاندار کے ’’ دم واپسیں‘‘ پر بالعموم اور انسان کیلئے بالخصوص بولا جاتا ہے۔ حقیقی اور مجازی دونوں صورتوں میں اس کا مفہوم زندگی یا زندگی سے متعلقہ امور میں ’’امید کی ڈوری‘‘ ٹوٹ جانا ہی مراد لیا جاتا ہے۔ یہی حالت آج کل ہماری ملکی معیشت کی ہے جو جاں بلب ہے اور اپنی آخری سانسیں گنتی نظر آ رہی ہے۔ اس سلسلے میں ملکی قرضوں کے حوالے سے چند روز قبل سٹیٹ بنک نے جو رپورٹ شائع کی وہ ’’محبان ملک و قوم‘‘ کی آنکھیں کھولنے دینے کیلئے کافی ہے۔ سٹیٹ بنک کے مطابق وفاقی حکومت کے قرضے 35 ہزار 555 ارب روپے کی بلند ترین سطح پر جا پہنچے۔ دو سال میں 10 ہزار 865 ارب روپے کا ریکارڈ اضافہ ہوا۔ سٹیٹ بنک کی چشم کشا اور ہوش ربا رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا کہ حکومت نے اوسطاً ہر روز 15 ارب روپے قرض لیا، نئے مالی سال کے آغاز سے ہی قرضوں کی رفتار تیز ہے۔ پہلے مہینے (جولائی میں) وفاقی حکومت کے قرضوں میں 450 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ جولائی ختم ہونے تک قرضوں کا حجم 355 کھرب، 55 ارب 40 کروڑ روپے تک پہنچ گیا۔ رواں مالی سال کے صرف 2 ماہ (جولائی، اگست) میں حکومت نے 2 ارب 24 کروڑ 80 لاکھ ڈالرکا قرضہ لیا۔ پچھلے مالی سال انہی دو مہینوں میں حکومت نے ایک ارب 65 کروڑ 90 لاکھ ڈالر قرض لیا تھا۔ اب آئی ایم ایف سے قرضہ کی تیسری قسط کیلئے مذاکرات ہو رہے ہیں جو پہلے مرحلے میں بے نتیجہ رہے کیونکہ آئی ایم ایف (انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ) نے قرض کی تیسرے قسط جاری کرنے کیلئے بجلی، گیس اور یوٹیلٹی سٹورز پر سبسڈی ختم کرنے کی شرط عائد کی ہے تاہم وزارت خزانہ کے ذرائع نے سبسڈی ختم کرنے کی شرط کی تردید کی ہے۔ حالانکہ یہ محض ’’تردید‘‘ ہی ہے۔ ورنہ پاکستان میں (پی پی، ن،ق،م ش) کوئی بھی حکومت ہو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی شرائط آنکھیں بند کر کے ماننا ہی پڑتی ہیں اس لیے حکومت کو اس پر ’’چیں بجبیں‘‘ ہونا چاہیے نہ پریشان و بے قرار۔ کیونکہ ماضی میں بھی کشکول توڑنے نے کے دعوے کیے جاتے رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ ’’جہدا کھائیے او ہدا گائیے‘‘ اور منہ کھا وے تے اکھ شرما وے‘‘ کے مصداق ساری شرائط ماننا ہی پڑتی ہیں۔ عربی زبان کا محاورہ ہے کہ ’’الانسان عبدالاحسان‘‘ (بند احسان کا غلام ہے) ایک اور محاورہ ہے کہ ’’الاحسان یقطع اللسان‘‘ (احسان زبان کاٹ دیتا ہے یعنی کسی کا ممنون ہونے کے باعث بولنے کی سکت و ہمت نہیں رہتی) انہی ضرب الامثال اور محاوروں سے سبق ملتا ہے کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی ساری شرائط مانے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ گورنر سٹیٹ بنک سمیت تمام مالیاتی اداروں کے سربراہ ان کی مرضی کیمطابق ہی لگائے جاتے ہیں،شبر زیدی جیسے نااہل بھی ایسے ہی ’’جہیز‘‘ میں ملتے ہیں کیونکہ یہی ’’مہرے‘‘ پاکستان کی معیشت کو ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی ہدایات کیمطابق چلاتے ہیں۔رہے (حکومت ، اپوزیشن سمیت) ہمارے حکمران۔ تو انہیں کوئی غرض ہے نہ فکر، معیشت ڈوبتی ہے تو ڈوب جائے پرواہ نہیں۔ کیونکہ پاکستان کی معیشت مکمل طور پر عالمی مالیاتی اداروں کے زیرانتظام و انصرام ہے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اپنے اپنے مفادات سے غرض ہے، قومی معیشت جائے بھاڑ میں۔ حالانکہ ملکی معیشت مستحکم ہو گی تو مہنگائی کم ہو گی، روزگار کے مواقع ملیں گے، غربت میں کمی ہو گی، عوام خوشحال ہونگے۔ اسی حکومتی و اپوزیشن ارکان قومی معیشت پر توجہ دیں، معیشت کی بحالی کیلئے ایمرجنسی بھی لگانا بھی پڑتی ہے تو لگا دیں کیونکہ معیشت مضبوط ہو گی تو ملک و قوم مضبوط ہونگے، سیاست، جمہوریت بھی تب ہی ثمر آور ہو گی لیکن بدقسمتی سے ہمارے لیے اس وقت سب سے اہم مسئلہ نیب قوانین کا ہے کیونکہ زرداری اور شہبازشریف کے زیر حراست ہونے سے جمہوری نظام کو خطرات لاحق ہیں، نوازشریف کے بیرون ملک بیٹھ رہنے سے ووٹ کی عزت نہیں۔ یہی ہمارے رویے انفرادی اور ذاتی مفادات کی عکاسی کرتے ہیں کوئی نہیں سوچتا کہ (اللہ نہ کرے، اللہ نہ کرے) ملک دیوالیہ ہو گیا تو پھر کہاں جائینگے اس لیے حکومت کے ’’قابل ترین‘‘ ماہرین معیشت اسد عمر، حفیظ شیخ سمیت سب کو سوچنا چاہیے۔ کیونکہ یہ ’’بلیم گیم‘‘ کا وقت ہے نہ سابقہ حکومتوں کو الزام دیا جا سکتا ہے۔
وطن کی فکر کر ناداں، مصیبت آنیوالی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے، ہونے والا ہے
دھرا کیا ہے بھلا، عہد کہن کی داستانوں میں
یہ خاموشی کہاں تک؟ لذت فریاد پیدا کر
زمیں پر تو ہو اور تیری صدا ہو آسمانوں میں
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ’’پاکستان‘‘ والو
تمہاری داستاں بھی نہ ہو گی داستانوں میں