جب کوئی یہ کہے کہ ایک چھت تلے سوئی سے لے کر ہوائی جہاز تک دستیاب ہے تو یہ بات کانوں کو بہت بھلی لگتی ہے ،پہلے یہ چیز صرف ’بات برائے بات ‘کے طور کہی جاتی تھی مگر اب ایک ڈیڑھ دہائی سے ملک کے اندر یہ تصور حقیقت میں بدلنا شروع ہوا ہے ،اس کی ایک وجہ شہروں کا پھیلائو بھی ہے،متوسط طبقہ کی تعداد بڑھی اور ان سب سے ذیادہ اہم چیز انٹر نیٹ کے استعمال میں اضافہ نے ترقی کے نئے دروازے کھولے، زندگی کے رنگ ڈھنگ میں بدلائو پیدا ہو گیا ،خاک نشیںکا بچپن اور لڑکپن تربیلا ڈیم کالونیز میں گذرا،دنیا کے اس عظیم ڈیم کی تعمیر کا پہلا پتھر رکھا جارہاتھا تو میرے مرحوم والد ذولفقار علی جعفری وہاں موجود تھے،اس ڈیم کی تعمیر میں حصہ لینے والے غیر ملکی ماہرین اور کارکنوں کے لئے جن کی اکژیت کا تعلق یورپ یا امریکہ سے تھا، وسیع اور خوبصورت کالونیز بسائی گئیں تھیں،کمرشل علاقے میںایسی وسیع مارکیٹیں موجود تھیں جن کو ’’کمیسریز‘‘ کہا جاتا تھا ،مکمل ائیر کنڈیشنڈ،سیلف سروس،نفیس پیکنگ میں آلو ،پیاز،گوشت قیمہ ،مرغی اور ضرورت کا ہر سامان دستیاب تھا ۔سامان کو گاہک ٹرالی میں رکھتے تھے،بجلی سے چلنے والی مشین بل تیار کرتی تھی ،ایک چھت کے نیچے سب کچھ دستیاب ہوتا تھا،ہمارے گھر جب کبھی مہمان آتے تو ان کو ہم ’’کمیسری‘‘ شاپنگ کرانے لے جاتے تو ان کو یقین نہیں آتا تھا کہ ایک چھت کے نیچے سیلف سروس کے تحت سب کچھ دستیاب ہے ،یہ ستر کی دہائی کا ذکر ہے،ماضی کا ذکر اس لئے کیا کہ بتایاجائے کہ دنیا اس وقت بدل چکی تھیں ،مگر آبنائے وطن کو اس تبدیلی کی ہوا سے دور رکھا گیا تھا،کوئی ایسا ذریعہ نہیں جس سے پاکستانی یہ جان سکتے کہ ان کو پتھر کے دور سے نکالنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیںہو رہی ،سیاست ،بزنس اوردوسرے بااثر طبقات کے لوگ بیرون ملک جاتے ہوں گے مگر ان کی کوئی خواہش نہیں تھی کہ وہ جدت کی کوئی لہر یہاں بھی پیدا کرنے کی کوشش کریں،مگر بدلائو کی رفتار کو سست کیا جا سکتا ہے روکا نہیں جا سکتا ،غیر ملکی فلموں ،پھر ٹی وی اور انٹر نیٹ کے بعد انفارمیشن کے انقلاب نے ملک کے اندر بھی بزنس سمیت ہر شعبہ کو متاثر کرنا شروع کیا ،کہتے ہیں کہ کوئی اچھوتا آئیڈیا زندگی کو بدل دیتا ہے ،اس طرح سے ملک کے اندربھی نئے خیالات اور بزنس کے انداز میں تبدیلی ہونا شروع ہوئی اور آج برانڈ کا دور گذر رہا ہے ،گذشتہ دس سے پندرہ سال میں شہروں کی نئی لک کے پیچھے ان ذرخیزذہنوں کااحسان ہے جنہوں نے کوئی نیا آئیڈیا پیش کیا ،یہ پہلے سے موجود طریقہ میں نئے انداز داخل کئے اور اپنی محنت اورچیلنج کو قبول کرنے کی عادت کے باعث بزنس کو درجہ کمال پر پہنچا دیا ہے ،خاک نشیں کو نوجوان بزنس مینز کی گفتگو میں ہمیشہ دلچسپی رہی ہیں ،کیونکہ یہ وہ طبقہ ہے جو بدلائو کے تصور کو قبول کرتا ہے ،اس کو زرا بھر راستہ دے دیں وہ آگے بڑھتا ہے اور کبھی پلٹ کر نہیں دیکھتا،جڑواں شہروں کے ساتھ ساتھ ملک کے تمام بزنس سینٹرز میںاب ایسے برانڈز سٹورز آچکے ہیں جن میںاب ایک چھت کے نیچے سب کچھ دستیاب ہے ،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ دن بھی دور نہیںجب اس ملک کو کوئی نوجوان ایسا بزنس سینٹر بھی کھو ل دے گا جس میں گروسری سے لے کر جمبو جیٹ اور زمین فضا اور سمندر میں پائی جانے والی ہر چیز اور ہر سروس دستیاب ہو گی ۔بزنس بدلنے والوں میں کچھ تو ایسے ہیں جو سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے مگر کچھ ایسے ہیں جن کے پاس سوائے اللہ کے بھروسے کے کچھ نہ تھا مگر آج وہ کاروباری چینز کے مالک ہیں ،انھی میں سے ایک چودھری محمد طاہر ہیں جو ’’پنجاب کیش اینڈ کیری ‘‘ سٹورز کی چین کو چلا رہے ہیں اور کچھ ہی مدت گزرتی ہے تو کسی نئے علاقے میں ان کے نئے سٹور کے کھلنے کی اطلاع ملتی ہے ،چودھری محمد طاہر سے اپنی خواہش پر وقت لے کر ملا ،دفتر میں داخل ہوا تو سامنے سادہ سے لباس میں ملبوس جواں سال شخص کو مسکراتے پایا،ایک ہی سوال کیا کہ بتائیں کیسے اس مقام تک پہنچے؟چودھری محمد طاہر کہنے لگے فیملی کا تعلق نارووال شکر گڑھ سے ہے ،والد کا کھل ،بنولی اور چاول کا بزنس تھا،میٹرک سے بی اے تک شکرگڑھ میں ہی تعلیم حاصل کی ،1992ء میں اسلام آباد آ گیا ،مقصد یہ تھا کہ اسلام آباد سے روز گار کے لئے سعودی عرب چلا جائوں گا ،یہاں جلد محسوس ہوا کہ چاول کی مار کیٹ موجود ہے،پہلا رسک لیا اور ایک ٹرک چاول کا منگوایا اور ایک چھوٹی دکان کھول کر آغاز کیا ،یہ ٹرک چاول بک گیا تو حوصلہ افزائی ہوئی تو دوسرا ٹرک بھی منگوایا ،اپنے ہاتھوں کی تلیوں پر چاول رکھ کر مارکیٹ میں گھومتا تھا اور لوگوں کو کہتا کہ ہمارا چاول بھی ٹرائی کر لو ، کچھ افراد مجھ سے ایک کلو چاول لے جاتے اور اگلی بار 5کلو لینے آ جاتے ،اس طرح ان کے پنجاب رائس سٹور کی بنیاد مظبوط ہوتی چلی گئی اورہر گذرتے دن کے ساتھ کام پھیلنا شروع ہوا،منافع کم ،معیار پورا کا اصول ہمیشہ اپنایا،آئی ٹی کو اپنایا ،اسی کا انعام ہے کہ’’ پنجاب کیش اینڈ کیری ‘‘وجود میں آئی جس کے سٹورز کی تعداد17ہو چکی ہیں،آج بھی پنجاب رائس سٹور پرہر ماہ کی ابتدائی تاریخوں میں گاہکوں کی لائن بنتی ہیں،اللہ تعالی کا انعام ہے کہ میں جو ایک وقت میں مزدوری کے لئے سعودی عرب جانا چاہتا تھا ،آج اپنے ادارے کی بدولت سینکڑوں نوجوانوں کے لئے باعزت روزگار کا ذریعہ بنا، ان کا کہنا تھا کہ آگے کی جانب سفر جاری رہے گا ،چودھری طاہر کا زہن نئے خیالات سے پر ہے ،رسک لینے سے گھبراتے نہیں ہیں ،خاک نشین ان کی باتیں سنتا رہا اور سوچتا رہا کہ ایک نوجوان جس نے’’زیرو‘‘ سے آغاز کیا اور کسی حکومتی مدد کے بغیر ایسا ادارہ کھڑا کر دیا جو معیار کانام ہے ،سوچیں اگر ایسے نوجوانوں کی مدد حکومت کی جانب سے بھی ہو تو کیا ممکن نہیں ہیں،یقین ہے وہ دن دور نہیں جب چودھری طاہر یاان جیسے نوجوان ملک کے میںبزنس کی اقدار کو مکمل بدل دیں گے ۔
’’ہتھیلی پر چاول‘‘
Sep 30, 2020