لاہور (خصوصی رپورٹر) پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے نئی مردم شماری 31 اگست 2022ء تک کرانے پر غور شروع کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ نئی مردم شماری کے بارے میں مشترکہ مفادات کی کونسل نے ماضی قریب میں ہونے والے اجلاس میں مردم شماری کرانے کی اجازت دے دی تھی اور رواں اکتوبر تک اس کے انعقاد کے بارے میں فیصلہ ہونا تھا لیکن مردم شماری کے مقاصد اسی وقت حاصل ہو سکتے ہیں اگر ان میں کوئی ایسا عنصر شامل نہ ہو جس سے کسی آبادی یا صوبہ کی منصوبہ بندی متاثر ہو، جیسا کہ ماضی بالخصوص 2017ء میں ہونے والی مردم شماری کی منظوری تک سوال اٹھتے رہے ہیں۔ ملک کی آبادی اور اس کے تناسب کو مد نظر رکھ کر ہی مرکزی حکومت اور صوبائی حکومتیں منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ اس سے صوبوں میں وسائل کی تقسیم اور مسائل و ضروریات کے بارے میں اعدادوشمار حاصل کرنے، صوبوں میں پانی کی تقسیم، ٹیکس کا حصول، بیروزگاری، بجلی اور رہائش جیسے مسائل کے اعدادوشمار کے حصول میں مدد ملتی ہے۔ قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی رپورٹ کے مطابق ساتویں مردم شماری 31 اگست 2022ء تک کرائے جانے پر غور کیا جا رہا ہے۔ مردم شماری کی حتمی منظوری مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری سے مشروط ہو گی۔ رپورٹ کے مطابق ادارہ شماریات نے مردم شماری کے لیے 23 ارب روپے کا بجٹ مختص کرنے کی درخواست کر دی۔ وزارت خزانہ نے ابتدائی طور پر 5 ارب روپے مردم شماری کے لیے مختص کر آئینی ذمہ داری کے تحت پاکستان میں مردم شماری ہر 10 سال بعد ہونا ہوتی ہے۔ سب سے پہلی مردم شماری آزادی کے چار سال بعد 1951ء میں ہوئی تھی۔ پھر 1961،1972،1981 اور 1998 اور آخری مردم شماری 2017ء میں ہوئی۔ تین سال کی تاخیر کے بعد وفاقی کابینہ نے گزشتہ سال دسمبر میں وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت ایک اجلاس میں 2017ء کی مردم شماری کی منظوری دی تھی۔ جس میں وفاقی حکومت کے اتحادی متحدہ قومی موومنٹ کی طرف سے اختلافی نوٹ بھی پیش کیا گیا جبکہ کراچی کی مردم شماری پر جماعت اسلامی نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ جہاں سندھ نے اس عمل کی مخالفت کی تھی وہیں اس نے حتمی نتائج کے اجراء کو بھی مسترد کر دیا۔ مردم شماری پر کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ساتویں مردم شماری کے پس منظر میں خیبرپی کے سے اٹھنے والی آواز کے مطابق جب تک مردم شماری نہیں ہوگی وسائل کی تقسیم درست طریقے سے نہیں ہو سکتی۔ جبکہ بلوچ تحفظات یہ تھے کہ قیام پاکستان سے قبل بلوچستان میں پشتونوں اور بلوچوں کی آبادی برابر تھی۔ 1972ء کی مردم شماری میں بلوچوں کی تعداد پشتونوں سے زیادہ ظاہر کی گئی تھی۔ بلوچستان میں تقریبا تین لاکھ افغان پناہ گزیں ہیں اور اس مردم شماری میں کسی بھی غیرملکی کو پاکستانی شہری کے طور پر درج نہیں کیا جانا چاہیے۔ جبکہ 40 لاکھ افغان پناہ گزینوں کے پاکستانی شہری کے طور پر رجسٹرڈ کروانے سے ڈیموگرافک تبدیلی کے امکانات ہیں اور یہ بلوچوںکو اقلیت میں بدلنے کی ایک کوشش ہوگی۔ علاوہ ازیں صوبے میں شورش کے خاتمہ، بلوچوں کی دوبارہ آبادکاری اور افغان پناہ گزینوں کے انخلاء کے بغیر بلوچستان میں شفاف مردم شماری کرانا ناممکن ہے۔ اس صورتحال میں جب فیڈریشن کے چار میں سے تین صوبوں کی طرف سے 2017ء کی مردم شماری پر اعتراضات سامنے آئے تو نئی مردم شماری کا فیصلہ درست سمت میں اٹھایا جانے والا قدم ہے۔