پاک چین اقتصادی راہداری میں افغانستان کی شرکت 

پاکستان کی جانب سے پاک چین اقتصادی راہداری میں شمولیت کے لیے افغانستان کو دعوت ایسے وقت میں دی گئی ہے جب کچھ افواہیں گردش کررہی ہیں کہ پاکستان میں سی پیک پر سست روی سے کام کیا جا رہا ہے ۔افغانستان اس وقت کئی قسم کے بحرانوں سے گزر رہا ہے جن میں امن و امان کی صورتحال کے ساتھ ساتھ معاشی طور پر مستحکم ہونا بہت بڑا چیلنج ہے۔ کابل پر کنٹرول کے بعد  طالبان حکومت کو ایک بہت بڑے معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔امریکی فوج کے انخلاء اور اشرف غنی حکومت کے خاتمہ کے بعد طالبان نے افغانستان کے تمام علاقوں کا کنٹرول سنبھال لیا تھا جس کے تین ہفتے بعد انہوں نے اپنی عبوری حکومت کا اعلان بھی کر دیا ۔امریکی صدرنے طالبان کی عبوری حکومت پر شدید اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ عبوری حکومت میں شامل بعض عناصر پر انہیں تشویش ہے اس کے ساتھ ساتھ امریکی صدر نے چین افغان تعلق پر بھی خدشات کا اظہار کیا۔ امریکی صدر نے کہا کہ افغانستان میں امریکی مخالف حکومت کے قیام کے بعد چین اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا ۔ اس کے ساتھ امریکہ نے افغانستان کے اربوں ڈالرکے اثاثے جو امریکی بینکوں میں محفوظ ہیں انہیں منجمد کردیا۔اس وقت امریکی بینکوں میںافغانستان کے تقریبا ً نو ارب ڈالرموجود ہیں جن کو منجمد کر دیا گیا ہے ۔ اسی طرح عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے نے بھی ترقیاتی رقوم منجمد کر دیں جس کے باعث افغانستان جو پہلے ہی بدحالی کا شکار ہے ایک اور معاشی بحران کا شکار ہوگیا ۔ عالمی بینک کے جاری کیے گئے اعدادو شمار کے مطابق افغانستان کو ترقیاتی کاموںکی مد میں ملنے والی امداد مجموعی ملکی پیداوار کے 22فیصد کے برابر ہے۔ اسی طرح عالمی ادارہ برائے خوراک نے تنبیہ کی ہے کہ ملک کی چار کروڑ آبادی میں سے صرف پانچ فیصد کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ روزانہ کھانا کھا سکیں ۔ اس وقت 93 فیصد ایسے افراد ہیں جن کو خوراک میسر نہیں ہے تاہم گزشتہ حکومت میں بھی یہ تعداد کوئی حوصلہ افزا نہیں تھی اس وقت اسی فیصد افراد بھوک کا شکار تھے۔ گزشتہ بیس سالوں کی جنگ اور حکومتوں کی کرپشن نے افغانستان کے عوام کو اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ بڑے بڑے شہروں میں بینکوں کے باہر صرف پیسے نکلوانے والوں کے لیے لمبی لمبی لائنیں لگی ہوئی ہیں ۔ کاروبار بند ہو چکے ہیں یا پھر تعطل کا شکار ہیں ایسے میں امریکہ ،مغربی ممالک اور عالمی اداروں کی جانب سے افغانستان کے اربوں ڈالر کے اثاثوں کو منجمد کرنا ، امداد کو روکنا اور معاشی بحران کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا بہت بڑا المیہ ہے۔ چینی وزیر خارجہ نے جی 20ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ و مغربی ممالک کے ضمیر کو جنجھوڑنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ دنیا طالبان حکومت پر معاشی پابندیوں کو ختم کرے تاکہ وہاں موجود بڑے پیمانے پر انسانی بحران اور معاشی بدحالی سے نمٹا جا سکے ۔ انہوں نے افغانستان کے اثاثوں کو افغان عوام کی ملکیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں افغانستان پر سیاسی دبائو ڈالنے کی بجائے استعمال کیا جانا چاہیے ۔ چین نے جی 20ممالک پر زور دیا کہ وہ افغانستان میں غربت کے خاتمہ ، ترقیاتی سرگرمیاں جاری رکھنے ، روزگار کمانے اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبے جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ افغان شہریوں کی فوری ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد جاری کی جائے ۔
 اس موقع پر چین نے افغانستان کے لیے تین کروڑ دس لاکھ ڈالر مالیت کی اشیاء فراہم کرنے کا اعلان بھی کیا ۔ اس وقت پاکستان اور چین افغانستان میں عدم استحکام سے خاتمہ کے لیے مثبت انداز میں تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ چینی سفیر نے بھی افغانی وزیر خارجہ عامر خان متقی کے ساتھ ملاقات میں انہیں امداد کی پہلی کھیپ چنددن میں پہنچنے کی یقین دہانی کرواتے ہوئے واضح کیا کہ چین انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اپنی امداد جاری رکھے گا۔ امریکہ کی جانب سے افغانستان کو ایسی صورت حال میں اکیلا چھوڑنے پر چین میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے جس پر چین کا موقف بڑا واضح ہے کہ غیر مستحکم افغانستان علاقائی ممالک کے لیے بھی خطرناک ہے ۔ چین کے مختلف سفارتی بیانات اشارہ کر رہے ہیں کہ آئندہ آنے والے دنوں میں دونوں ممالک ایک نئے اتحاد کا حصہ بننے جارہے ہیں جس میں پاکستان کے علاوہ روس اور دیگر وسط ایشیائی ممالک کا اہم کردار ہو سکتا ہے ۔طالبان بھی چین کو افغانستان میں اہم شراکت دار قرار دے چکے ہیں ۔جنوبی ایشیا میں چین اور افغانستان کو نئے شراکت دار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور امریکہ و مغربی ممالک کو یہ تشویش کھائے جارہی ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ(BRI) منصوبے میں افغانستان کا کردار چین کوعلاقائی سطح پر مزید مضبوط کر دے گا دوسری جانب پاک چین اقتصادی راہداری میں افغانستان کی شمولیت سے بھارت بھی پریشان نظر آرہا ہے ۔ اشرف غنی  دور میں بھارت نے چین اور پاکستان کے اثر کو کم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رکھی تھی ۔ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد جہاں امریکہ کردار ختم ہوچکا ہے وہاں بھارت بھی شدید مایوسی کا شکار نظر آرہا ہے ۔بہت سے تجزیہ نگار افغانستان کی امن و امان کی مخدوش صورتحال پر مختلف سوالات اٹھا رہے ہیں کہ ان حالات میں چین کس طرح اپنی سرمایہ کاری جاری رکھ سکتا ہے تاہم طالبان نے چین کو نہ صرف محفوظ سرمایہ کاری کی یقین دہانی کروائی ہے بلکہ چین کے اندرونی معاملات بالخصوص وہاں کام کرنے والی بعض انتہاپسند مسلم تحریکوں کے لیے اپنی سرزمین نہ استعمال کرنے کی یقین دہانی بھی کروا دی ہے ۔چین کے ردعمل سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ طالبان کی یقین دہانی پر اعتماد کر چکا ہے ۔ علاوہ ازیں کچھ ایسے گروہ بھی موجود ہیں جو پاکستان میں چینی کمپنیوں اور افراد پر حملوں میں ملوث ہیں ان گروہوں کوجہاں بھارت و امریکہ کی حمایت حاصل ہے وہاںیہ بھی اطلاعات ہیں کہ ان گروہوں کے لیے افغانستان میں پناہ گاہیں بھی موجود ہیں ۔ طالبان نے ان گروہوں کے خلاف آپریشن کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے جس سے ظاہری بات ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے تمام منصوبے ذیادہ تیزی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچ سکیں گے۔افغانستان کی معاشی اور امن و امان کی بگڑتی صورتحال کی وجہ سے سب سے ذیادہ متاثر ہونے والے ہمسایہ ممالک حالات پر گہری نظررکھے ہوئے ہیں تاہم جنوبی ایشیا میں امریکی مفادات کے تناظر میں احتیاط کے ساتھ اقدامات کیے جارہے ہیں ۔ پاکستان ،چین اور روس اس حوالہ سے خاصے سرگرم ہیں اور علاقائی تناظر میں افغانستان کو ایک پرامن اور سیاسی طور پر مستحکم ملک دیکھنا چاہتے ہیں ۔ پاک چین اقتصادی راہداری میں افغانستان کی شمولیت سے ایک طرف چین کی رسائی وسط ایشیائی ریاستوں تک ہو سکتی ہے جس سے خطے میں نئی معاشی سرگرمیوں کا آغاز ہوجائے گا اور اس طرح علاقائی ترقی کا ایک ایسا نیا دور شروع ہو سکتا ہے جس میں امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک پر انحصار بتدریج کم ہوتا جائے گا ۔
مریکہ و دیگر مغربی ممالک ہمیشہ سے امداد اور دیگر معاشی سرگرمیوں کو اپنے سیاسی مفادات اوراثرورسوخ بڑھانے کے لیے استعمال کرتے آئے ہیں شاید یہی وجہ تھی کہ ایک طرف بھارت کو بڑی منڈی کی حیثیت سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے باوجود تمام قسم کے تعلقات جاری رکھے جاتے جبکہ پاکستان اور دیگر کمزور ممالک پر آئے دن پابندیاں عاید کی جاتی رہی ہیں اور اس طرح طاقت کا توازن بری طرح بگڑ جاتا ۔ تاہم چین ، روس اور پاکستان کے تعاون سے ایک ایسا الائنس وجود میں آرہا ہے جس کا بظاہر کوئی اعلان نہیں کیاگیا تاہم عملی طور پر سے دیکھا جا سکتا ہے ۔طالبان کے ساتھ چین ، روس اور پاکستان اپنے اپنے انداز سے تعاون کررہے ہیں جسے مغربی ممالک میں منفی انداز میں دیکھا جا رہا ہے تاہم یہ بات واضح ہے کہ جب تک علاقائی ممالک ایک نہیں ہوں گے یہ خطہ ترقی یافتہ ممالک میں اپنی جگہ نہیں بنا سکے گا ۔ اس کے لیے یقینا ً طاقت کا توازن بدلنا پڑے گا اور علاقائی قوتوں کو ایک ہو کر اپنے خطے کی ترقی کے لیے سوچنا ہو گا۔ چین اور پاکستان اب ایسے ہی سفر پر گامزن ہیں جس کی منزل امن اور معاشی استحکام ہے ۔ 

ای پیپر دی نیشن