پاکستان تحریکِ انصاف میں ضرور کہیں کہیں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف بات کی جاتی ہے یا پھر ایسا رویہ اختیار کیا جاتا ہے جس سے یہ محسوس کیا جا سکے کہ انہیں ناپسند کیا جا رہا ہے یا جماعت کے اندر ہی لوگ ان سے خوش نہیں یا ان کی کارکردگی اچھی نہیں ہے۔ ایسا زیادہ تر وفاق سے ہوتا ہے جہاں پی ٹی آئی کے وزرا اپنے ہی وزیر اعلیٰ کی اپوزیشن کی ذمہ داری نبھاتے ہیں۔ چند روز قبل بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے فواد چودھری نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا جو الفاظ انہوں نے استعمال کیے انہیں پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ وفاق اپنے ہی صوبائی وزیر کی تضحیک کر رہا ہے۔ بہرحال یہ پاکستان تحریکِ انصاف کا اندرونی مسئلہ ہے لیکن اس پر توجہ کی ضرورت ہے۔
وفاقی وزرائ کئی کاموں اور خرابیوں کا ذمہ دار۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو ٹھہراتے ہیں۔ حالانکہ ان کاموں سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں ہوتا لیکن چونکہ وہ آسان ہدف ہیں ان پر حملہ کر دیا جاتا ہے۔ مسائل درحقیقت وفاقی حکومت کے غلط فیصلوں کی وجہ سے ہوتے ہیں جیسا کہ حکومت ایک مرتبہ پھر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا سوچ رہی ہے۔ اگر حکومت جو سوچ رہی ہے اس پر عمل کیا تو مہنگائی کا ایک طوفان آئے گا جس میں بہت کچھ تباہ ہو جائے گا۔ ویسے تو مہنگائی کا طوفان پہلے ہی بہت کچھ تباہ کر چکا ہے جو بچا کھچا ہے وہ یکم اکتوبر کو تباہ ہو جائے گا۔ سننے میں آ رہا ہے کہ پیٹرول کی قیمت میں پانچ روپے پچیس پیسے فی لیٹر تک اضافے کا امکان ہے جبکہ ڈیزل کی قیمت میں ساڑھے تین روپے فی لیٹر تک اضافے کا امکان ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا حتمی فیصلہ وزارت خزانہ وزیر اعظم کی مشاورت سے کرے گی۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل کا انحصار پیٹرولیم لیوی اور جی ایس ٹی پر ہوگا، اس وقت پیٹرول پر پیٹرولیم لیوی پانچ روپے باسٹھ پیسے فی لیٹر ہے،ڈیزل پر فی لیٹر پانچ روپے چودہ پیسے پیٹرولیم لیوی عائد ہے۔ پندرہ ستمبر کو حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہوئے پیٹرول کی قیمت میں پانچ روپے فی لیٹر جب کہ ڈیزل کی قیمت میں پانچ روپے سے زائد اضافہ کیا گیا تھا۔ رواں ماہ پیٹرولیم مصنوعات پر لگائے گئے سیلز ٹیکس کی شرح میں بھی تبدیلی کی گئی تھی۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے ہائی سپیڈ ڈیزل پر سیلز ٹیکس کی شرح سترہ فیصد سے کم کر کے گیارہ اعشاریہ چونسٹھ فیصد کر دی گئی ہے۔ پیٹرول پر ساڑھے دس فیصد اور مٹی کے تیل پر سیلز ٹیکس کی شرح چھ اعشاریہ ستر فیصد برقرار رکھی گئی ہے۔سپیڈ ڈیزل پر سیلز ٹیکس کی شرح گیارہ اعشاریہ فیصد ہے جبکہ لائٹ ڈیزل پر سیلز ٹیکس کی شرح 0.20 فیصد برقرار رکھی گئی۔ دو روز قبل گلگت بلتستان میں پیٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن نے پیٹرول پمپس بند بھی کر دیے تھے۔
اب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا ذمہ دار تو عثمان بزدار کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا اس کی ذمہ دار وفاقی حکومت ہے۔ کیا وفاق میں بیٹھے وزراء اور مشیران کرام یہ جانتے ہیں کہ پہلے ہی عام آدمی غربت کی چکی میں پس رہا ہے، لوگ خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہیں لیکن حکومت کو فرق نہیں پڑتا، حکومت کو احساس ہی نہیں ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات اور سوئی گیس کی قیمتوں میں اضافے سے عام آدمی کی زندگی کس بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو عوام ہے ہمدرد کچھ تو خیال کرتے۔ بدقسمتی سے آج تک ایسا نہیں ہو سکا۔ حکومت چھوٹے دکانداروں کی پکڑ دھکڑ سے نمائشی کام کر کے لوگوں کو بے وقف بنانے کی کوشش کرتی ہے لیکن اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ مہنگائی روکنا حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ حکومت غریبوں کے خاتمے کا منصوبہ تیزی سے آگے بڑھا رہی ہے۔ بدقسمتی ہے کہ اپوزیشن کو ذاتی مسائل سے فرصت مہیں اور حکومت کے پاس عام آدمی کے لیے وقت نہیں دونوں کی ترجیحات میں کہیں بھی عام آدمی کا دور دور تک کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا اس کے بعد مہنگائی کا ایک نیا طوفان آئے گا پھر گیس کی قیمتیں بڑھیں گی پھر مہنگائی کی ایک نئی لہر آئے گی۔ حکومت اپوزیشن پر الزام تراشیاں کرتی رہے گی اور اپوزیشن اپنے کیسز کا دفاع کرتی رہے گی اس دوران غریب بھوک سے مرے گا، مڈل کلاس کے ہاس چیخنے کی سکت بھی باقی نہیں رہے گی اور یوں نئے پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گا۔ کپتان کی تبدیلی کا وعدہ پورا ہو جائے گا کیونکہ کوئی یہ تو نہیں کہہ سکے گا کہ تبدیلی نہیں آئی کیا اتنی مہنگائی کے بعد بھی کسی کو شک ہے کہ تبدیلی نہیں آئی۔ تبدیلی تو آ چکی ہے اب تو اس تبدیلی کی تبدیلی کے کیے منتیں مانگی جا رہی ہیں۔ ساتھ ہی یہ خبر بھی ہے کہ ہم نے عالمی بنک سے مزید قرضے حاصل کر لیے ہیں۔عالمی بینک نے پاکستان کو انتالیس کروڑ ستر لاکھ ڈالرز کا قرض جاری کردیا ہے۔یہ قرض غالباً عالمی بینک کی شرائط پر عمل کرنے کے بعد جاری ہوا ہے۔ پاکستان نے توانائی کے شعبے میں عالمی بنک کی شرائط پر عمل کیا جبکہ گردشی قرض کو روکنے کے لیے اقدامات بھی کیے صرف یہی نہیں بلکہ بجلی سبسڈی پر بھی نظر ثانی کی۔ اب ہم ان قرضوں کے فوائد سنیں گے۔ ہمیں بتایا جائے گا کہ دیکھیں ہمارے فوائد ہیں۔ ہماری وجہ سے پیسے ملے ہیں ہم نے نہ ہوتے تو نجانے کیا ہوتا۔ حکومت یاد رکھے کہ ذرائع آمدن بڑھائے بغیر مہنگائی کم نہیں ہو گی حکومت یہ بھی یاد رکھے کہ ووٹ کینے دوبارہ انہی لوگوں کے پاس جانا ہے۔ اگر ووٹ لینے ہیں تو پھر ووٹرز کا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے اگر یہی صورت رہی تو پھر حکومت کو کسی اپوزیشن کی ضرورت نہیں یہ خود ہی اپنے لیے کافی ہے۔