1979ء میں جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس وقت ہم نے امریکی آشیرباد پر افغان جنگ کو اپنی جنگ قرار دیکر امریکی ڈالرز‘ اسلحہ اور تربیت کے زور پر افغانستان میں جاکر سوویت یونین کا تعاقب کیا اور اس دور میں پاکستان براہ راست وہاں جاکر لڑتا رہا۔ امریکی آشیرباد پر دنیا بھر سے جہادی افراد کو اس خطے میں جمع کیا گیا اور اسلحہ و تربیت دیکر افغانستان میں سوویت یونین کیخلاف لڑایا گیا۔ اس وقت میرے قائد ایئرمارشل اصغر خان اور خان عبدالولی خان نے اس امر کی مخالف کی اور متنبہ کیا کہ اگر ہم نے سوویت افغان جنگ میں حصہ لیا تو ہمارا ملک آئندہ 50سال تک اس کے بدترین اثرات کا شکار رہے گا۔ اس وقت ہم نے امریکی پروپیگنڈے کے باعث انہیں ’’روس کا ایجنٹ‘‘ قرار دیکر اپنی غلط پالیسی جاری رکھی تو دوسری طرف پورا ملک افغان مہاجرین کے سپرد کردیا گیا۔ حالانکہ ایران نے بھی افغان مہاجرین کو پناہ دی تھی لیکن انہوں نے بارڈر کے ساتھ مخصوص کیمپوں تک انہیں محدود رکھ کر حالات بہتر ہوتے ہی واپس اپنے ملک بھیج دیا لیکن ہم نے انہیں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بناکر دیئے اور یہاں کے مستقل شہری بنادیا۔
سوویت یونین کی افغان جنگ میں بدترین شکست کے بعد جب خانہ جنگی شروع ہوئی تو طالبان نے اپنے بل بوتے پر افغانستان میں اپنی حکومت قائم کی اور اس میں کسی مرحلے پر ہم نے یہ نہیں کہا کہ طالبان کو ہماری مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ اس وقت امریکہ نے بھی سوویت یونین کی شکست اور تقسیم کے بعد جہادی قوتوں کو ’’مجاہدین‘‘ کہنا ختم کردیا اور انہیں پہلے طالبان‘ پھر القاعدہ اور اب دہشت گرد قرار دیکر ان کے لئے زمین تنگ کردینے کی ہر ممکن کوشش کی۔ حالانکہ حقیقت میں تو یہی جہادی قوتیں امریکہ کو دنیا کی واحد سپر پاور بنادینے کا باعث بنیں ورنہ امریکہ براہ راست تو کبھی بھی روس کی سپر پاور والی حیثیت ختم نہیں کرسکتا تھا۔ امریکہ جب سے دنیا کی واحد سپر پاور بنا ہے اس کی پوری توجہ صرف مسلمانوں کی جانب مبذول ہوگئی ہے۔ اب امریکہ ایک ایک کرکے مسلم ممالک میں اپنی مرضی کی حکومت کے قیام کیلئے برسرپیکار ہے۔ روس کے سپر پاور اسٹیٹس کے خاتمے کے بعد سے مسلم ممالک امریکہ و یورپ کیلئے دسترخوان پر سجے کھانے کی طرح بن چکے ہیں جنہیں وہ باری باری کھارہے ہیں۔
9/11کے واقعے کے بعد امریکہ نے ابتدائی طور پر ہی اس کا سارا ملبہ القاعدہ اور اسامہ بن لادن پر ڈال کر طالبان حکومت کو اسامہ بن لادن کی حوالگی یا جنگ کی دھمکی دیدی اور 9/11کے بعد ہم نے باقاعدہ طور پر امریکہ کی نام نہاددہشت گردی کیخلاف جنگ میں بھرپور حمایت کا اعلان کردیا۔ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد سے اب تک کبھی بھی ہم نے یہ نہیں کہا کہ ہم امریکہ کی دہشت گردی کیخلاف جنگ میں اسکے ساتھ نہیں بلکہ ہم نے امریکہ کو اپنے ملک میں ڈرون حملوں تک کی اجازت دیئے رکھی۔افغانستان کی جنگ میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا ہے اور پاکستان کو سینکڑوں ارب ڈالرز کے معاشی نقصان کے ساتھ ساتھ لگ بھگ 80 ہزار فوجی و سول شہادتیں برداشت کرنی پڑیں۔ امریکہ کو دہشت گردی کیخلاف جنگ میں سہولت کاری کے عوض پاکستان کو ملنے والی امداد ان معاشی و جانی نقصانات کا 1%بھی نہیں لیکن امریکہ نے بھی ہمیشہ پاکستان سے Do Moreکا مطالبہ کیا۔
افغانستان پر امریکی حملے کے بعد ساری دنیا نے دیکھا ہے کہ طالبان اپنی ذاتی حیثیت میں جہاد کرتے رہے اور امریکہ سے لگ بھگ 20سال کی طویل جنگ بغیر کسی غیر ملکی امداد کے جاری رکھی۔ امریکہ نے افغانستان میں اپنے پسندیدہ افراد کی حکومتیں قائم کرکے پاکستان کو یکسر نظرانداز کئے رکھا اور بھارت کو افغانستان میں کھلی چھٹی دی گئی جہاں سے پاکستان میں علیحدگی پسند تحریکیں اور دہشتگردی کی منظم منصوبہ بندی شروع کی گئی جسے امریکہ‘ اسرائیل اور بھارت نے مشترکہ طور پر شروع کرکے پاکستان کو کمزور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور CPEC کے آغاز کے بعد ان کارروائیوں میں زبردست تیزی آگئی ۔ کئی بار بھارتی حکام نے کھلے عام دھمکی دی کہ ہم کسی صورت بھی CPECنہیں بننے دینگے اور افغانستان میں امریکی قبضے کے دوران پاکستان کے ہر طرح کے احتجاج کو یکسر نظر انداز کردیا گیا بلکہ اب تو سرحد پار سے پاکستان پر حملوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا تھا۔ان تمام حملوں پر پاکستان کے احتجاج اور حملہ آوروں کی نشاندہی کے باوجود افغانستان میں امریکی حکومت کی جانب سے کبھی بھی کوئی ایکشن نہیں لیا گیا بلکہ احتجاج کے بعد ان حملوں کی شدت میں ا ضافہ ہو جاتا۔
امریکہ نے اپنی معیشت اور اپنی فوج کا مورال بچانے کیلئے قطر میں طالبان سے مذاکرات کرکے افغان جنگ سے اپنی جان چھڑائی اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے باقاعدہ امریکی انخلاء کی ڈیڈ لائن دے دی۔ امریکی انخلاء کی ڈیڈ لائن پر عملدرآمد شروع ہونے کے بعد تمام اندازوں کے برعکس طالبان نے اپنے بل بوتے پر افغانستان سے قبضہ چھڑالیا اور تمام قابض امریکی و یورپی افواج کو ہنگامی انخلاء پر مجبور کردیا گیا۔ پاکستان نے امریکی درخواست پر پاکستان کی جیلوں میں قید طالبان لیڈروں کو رہا کرکے قطر مذاکرات میں بھیجا۔ اسکے علاوہ کسی مرحلے پر پاکستان نے مذاکرات میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ امریکہ نے براہ راست طالبان سے بات چیت کرکے تمام امور طے کئے۔
طالبان کی افغان حکومت کا قیام خالصتاً طالبان کی ذاتی جدوجہد و جہاد کا نتیجہ ہے۔ 9/11کے بعد سے پاکستان کا کوئی کردار نہیں کہ طالبان دوبارہ اقتدار حاصل کریں۔ اب ایک بار پھر ہم امریکی دباؤ میں آکر افغانستان میں حکومت کے قیام کیلئے مشورے دے رہے ہیں اور حکومت پاکستان ہر سطح پر بیان بازی کے ذریعے افغانستان میں حکومت کی تشکیل میں مداخلت کا تاثر پیدا کر رہی ہے اسی لئے افغان جنرل یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ ہمیں آزادانہ فیصلے کرنے دیئے جائیں اور ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کی جائے۔ افغان جنرل کا بیان قابل افسوس ہے کہ ہم نے انہیں یہ کہنے پر مجبور کردیا۔میں نے افغانستان کے تازہ حالات کے متعلق اپنے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ صدر‘ وزیراعظم‘ آرمی چیف‘ وزیر خارجہ اور ڈی جی آئی ایس آئی و ڈی جی آئی ایس پی آر کے علاوہ کسی ساتویں حکومتی شخص کو افغان معاملے پر ایک لفظ بھی کہنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے لیکن اب افغان جرنیل کے بیان کے بعد ہمارے ان چھ بڑوں کو بھی کسی مرحلے پر امریکی ڈکٹیشن کا تاثر نہیں دینا چاہئے۔ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہمارا حق نہیں بنتا کیونکہ انہوں نے خالصتاً ذاتی جدوجہد سے افغانستان پر قبضہ واپس لیا ہے اور نہ ہی امریکہ اخلاقی طور پر ہم پر دباؤ ڈال سکتا ہے کیونکہ اس نے افغانستان میں اپنے قبضے کے دوران کبھی بھی ہماری بات نہیں سنی بلکہ ہمیشہ Do more کا مطالبہ کیا گیا۔ اس نازک صورتحال میں ہمیں بہت سوچ سمجھ کر بات و عمل کرنے ہونگے تاکہ ماضی کی غلطیوں کا اعادہ نہ ہو۔پڑوسی ممالک کے ساتھ پاکستان کے بہترین و پرامن تعلقات سے ہی خطے میں استحکام آئے گا اور امن میں ہی معاشی ترقی مضمر ہے۔ امریکہ سمیت کسی بھی ملک کے ڈکٹیشن پر فیصلے کسی صورت بھی خطے کے امن کیلئے سودمند نہیں ہوسکتے۔