بدعتیں

سٹیٹ بنک کے نزدیک پاکستان میں معیشت کی بحالی کی رفتار توقع سے بڑھ گئی ہے لیکن ملک کے طول و عرض میں عام پاکستانی کا احساس اسکے برعکس ہے۔ وہ زری پالیسی سے ناآشنا ہے‘ جاری خسارے میں اضافہ ہوا ہے‘ روپے کی قدر 4.1 فیصد گری ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر تین گنا بڑھ کر ریکارڈ 20 ارب ڈالر ہو گئے ہیں تاہم پٹرول اور بجلی کی قیمت میں اضافے کے بعد شرح سود میں اضافے میں قرض لینے والے تاجروں اور صنعت کاروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا۔ آج سے چالیس سال پہلے بھی مقروض صنعتیں بیمار ہو کر قرضے معاف کرایا کرتی تھیں۔ ایچ یو بیگ وزیر خزانہ ہوا کرتے تھے‘ انکی سربراہی میں ایسے بیمار صنعت کاروں کو این آر او دیا گیا۔ کورونا کے دنوں میں نقصان کو پورا کرنے کیلئے دکانوں‘ ریستورانوں اور شاپنگ سینٹروں میں قیمتیں جا کر دیکھ لیں۔ سڑک پر پیدل چلنے والے سے کوئی پوچھ کر دیکھ لے اسکی حالت کیا ہے‘ آٹا‘ گھی‘ سبزی‘ گوشت‘ بجلی اور گیس کے بلوں سے عام آدمی ہر روز بڑبڑاتا ہے حکومت یا کسی اور کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ یوٹیلٹی سٹورز پر ایک ماہ میں تیسری بار قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ جولائی 2018ء سے اب تک پاور ٹیرف میں چالیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ کاروباری لوگ یہ اضافہ صارفین سے ہی وصول کرتے رہے ہیں۔ ایل این جی درآمد میں قومی خزانے کو گیارہ ارب سے زائد کا نقصان ہوا۔ اس کا خمیازہ بھی صارفین نے بھگتنا ہے۔ رکشا بھی اب مہنگی سواری ہے۔ ٹیکسی کا دور اچھا تھا‘ جبکہ رکشا اور ٹیکسی پر میٹر لگے ہوتے تھے۔ کیا یہ اب ممکن نہیں؟ ٹیکس نیٹ توسیع آرڈیننس کا مقصد کاروباری برادری کو ہراساں کرنا نہیں تو اور کیا ہے؟ 
وزیر خزانہ کو بھی اپنی کارکردگی دکھانا ہے۔ 15 اگست سے 15 ستمبر کے دوران آٹے کی قیمتوں میں 9 بار اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت دس کلو آٹے کا تھیلا 620 روپے تک پہنچ چکا ہے۔ غریب اسے 430 روپے میں خریدنے کیلئے سستے بازاروں کا رخ کرتے ہیں‘ تندور والے روٹی کی قیمت 15 روپے رکھنے کیلئے اب مطلوبہ منافع اسکے وزن میں کمی کرکے پورا کر رہے ہیں۔ آٹا بحران 2019ء میں شروع ہوا تھا۔ چینی کی قیمتوں میں اضافے کے ذمہ دار آج تک قانون کے کٹہرے میں نہیں لائے جا سکے۔ اگر ان پر ہاتھ ڈالا گیا ہوتا تو گندم اور چینی درآمد کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ جو پراپرٹی میں مشکوک سرمایہ کاری اور ریئل اسٹیٹ سیکٹر کو دستاویزی بنانے کی شرط سے متعلق ہے‘ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی مالیت 300 سے 400 ارب ڈالر ہے جبکہ جی ڈی پی میں اس سیکٹر کا حصہ دو فیصد یعنی 5 ارب ڈالر سالانہ ہے۔ ایف بی آر نے 22 ہزار پراپرٹی ڈیلرز کی رجسٹریشن کیلئے لائسنس کا نظام بھی تجویز کیا ہے۔ اب بے نامی جائیداد رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔ ایف بی آر نے ایک ایپ کے ذریعے 4500 دہشت گردوں کی ایک فہرست رئیل اسٹیٹ ایجنٹس کو فراہم کی ہے۔ پراپرٹی کی سرکاری ویلیو مارکیٹ ویلیو سے نہایت کم اور پراپرٹی آدھی سے بھی کم ویلیو ڈکلیئر کی جاتی ہے۔ اس سال پنجاب میں کپاس کے زیرکاشت رقبے میں 17 فیصد کمی کے باوجود گزشتہ سال کی نسبت 186.66 فیصد زیادہ پیداوار حاصل ہوئی ہے۔ اس سال یہ فصل 40 لاکھ ایکڑ پر کاشت کی گئی تھی۔ اگلے سال 50 لاکھ ایکڑ رقبہ زیرکاشت لایا جائیگا۔ پاکستان کپاس کی پیداوار میں دنیا میں چوتھا بڑا ملک ہے تاہم چھ سال سے پیداوار میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ گزشتہ سال 30 سال کی کم ترین سطح پر آگئی‘ درآمدی روئی 15 فیصد مہنگی ہے۔ وزیراعظم اور اعلیٰ عدلیہ کو اس ناقص اور ماورائے عقل فیصلہ کرنیوالوں کی کھچائی ضرور کرنا چاہیے تھی جنہوں نے ایک بدعت پیدا کی کہ تمام نالائقوں کو میٹرک اور انٹر کے امتحانات میں 33, 33 نمبر دیکر پاس کر دیا جائے۔ دنیا کے کسی ایک ملک میں بھی نالائقی کے باوجود کسی ایک طالب علم کو میٹرک یا انٹر کی سند دینے کی بدعت موجود نہیں۔ اب بھی صرف چار مضامین کا امتحان دینے والوں کو میٹرک اور انٹر کی سند مل جائیگی۔ گویا یہ بھی بدعت ہے اور پائو دودھ کو ایک لٹر سمجھنے والی بات ہے۔ بچوں کو نہ پڑھانا باربار تعلیمی ادارے بند رکھنا کونسی دانشمندی ہے۔ ہر چیز کھلی ہے اور تعلیمی ادارے بند۔ اس سے بڑی بوالعجبی اور کیا ہوگی۔ تعلیمی لیاقت پر کوئی سمجھوتہ ہونا نئی نسل کو ناکارہ کرنا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں ایسی بدعتیں پیدا نہیں کی گئیں۔ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد دو کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ یومیہ دو ڈالر سے کم آمدنی والا شخص غریب ہی ہوتا ہے۔ مغربی ممالک میں دس ڈالر یومیہ والا غریب ہے۔ گزشتہ پندرہ ماہ میں ملک میں پٹرولیم کی قیمت میں 159 اور عالمی منڈی میں 88.75 فیصد اضافہ ہوا۔ کرشنگ سے پہلے پنجاب مارکیٹ کمیٹی نے شوگر ملوں سے گنے پر پچاس پیسے کی بجائے ایک روپیہ فی چالیس کلو گرام فیس وصول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اندرون ملک پٹرول کی قیمتیں سوا سال میں 56.70 روپے فی لٹر تک بڑھی ہیں۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی وزیراعظم کی تعریف میں وہ کہا جو کسی بھی ملک کے وزیراعظم کیلئے کسی صدر مملکت نے نہیں کہا کہ دنیا عمران کی مرید بنے۔ انکے اس بیان کا مطلب یہ ہے کہ وہ اتنے بڑے مرشد اعلیٰ مقام ہیں کہ بلالحاظ مذہب عقیدہ مسلک سبھی انکے ہاتھ پر بیعت کرلیں۔ انکی کرامات ڈاکٹر عارف علوی کے علم میں ضرور ہوں گی۔ سیاسی اور معاشی طور پر عمران خان نے کوئی ترقی کا بے نظیر ماڈل پیش کیا ہے تو دنیا عمران کی مزید بنے‘ ورنہ کس کارنامے اور علم پر انکی مریدی اختیار کی جائے۔ انکی کہی کونسی بات پوری ہوئی ہے۔ دو سال سے کم عرصے میں اب وہ الیکشن کی تیاری اور اسے جیتنے پر صرف کرینگے۔یہ انہی کا دور مبارک ہے کہ ڈالر کی قیمت سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ جولائی 18ء سے اب تک بجلی کے نرخوں میں چالیس فیصد سے زائد اضافہ کیا جا چکا ہے بلکہ اس اضافے کے باوجود گردشی قرضہ کم ہونے کے بجائے دگنا ہو گیا ہے۔ بجلی کے بنیادی نرخ 2018ء میں 11 روپے 72 پیسے تھے جو اب چار روپے 72 پیسے اضافے کے بعد 16 روپے 44 پیسے ہو چکے ہیں۔ اووربلنگ اور اوورریڈنگ کی شکایات عام ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں ماہانہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں اضافہ کیا جارہا ہے جس سے صارفین پر 25 ارب روپے کا بوجھ پڑیگا۔ ادویات‘ بجلی‘ گیس‘ پٹرول سمیت کوئی چیز ایسی نہیں جس کی قیمت میں استحکام ہوا۔ نیب چیئرمین کی مدت ملازمت میں توسیع پر اپوزیشن لیڈر سے مشاورت نہ کرنے سے صورتحال کشیدگی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ آٹھ اکتوبر کو چیئرمین جاوید اقبال کی مدت ملازمت ختم ہو رہی ہے۔ نئے چیئرمین کی تقرری کیلئے اپوزیشن لیڈر اور وزیراعظم میں مشاورت آئینی تقاضا ہے جس سے حکومت انحراف کررہی ہے۔ نیب نے اپوزیشن لیڈر اور انکی فیملی کے کان پکڑوائے ہیں۔ اربوں روپے کے مقدمات چل رہے ہیں۔ نیب آرڈیننس میں چیئرمین کی مدت ملازمت میں توسیع دینے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر اعتراضات اٹھانے پر چیف الیکشن کمشنر نشانے پر ہیں۔ کنٹونمنٹ الیکشن میں پیپلزپارٹی کی پنجاب قیادت کو دھچکا لگا ہے۔ اب پی پی پی‘ ن لیگ اور پی ٹی آئی 2023ء کے انتخابات سے پہلے اپنی تنظیم نو پر توجہ دے رہی ہے۔

پروفیسر خالد محمود ہاشمی

ای پیپر دی نیشن