ایشیائی نوبل پرائز اور پاکستان

دنیا میں کئی حکومتیں اور ادارے مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنیوالی شخصیتوں کو ایوارڈز، اعزازات سے نوازتے ہیں۔ سائنس، ٹیکنالوجی، سماجی، ادبی و دیگر بہت سے شعبوں کے سرکردہ افراد کو یہ اعزازت دیے جاتے ہیں۔ بہت سے اعزازات پر یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ ان میں نسلی تعصب یا نظریاتی امتیاز برتا جاتا ہے۔ لیکن کوئی بھی اعزاز ملنا قابل فخر ہوتا ہے۔ایسے کئی ایوارڈز ہیں جنہوں نے اپنی ساکھ بنائی ہے اور ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ جن شخصیات کو وہ اعزاز یا ایوارڈ ملتا ہے اسکی صلاحیتوں پر شک یا اعتراض کیا جاتا ہے۔ اگر ایوارڈز کی تفصیل دینا شروع کی کہ کون سا ملک یا ادارہ کن شعبوں میں کون کون سا ایوارڈ دیتا ہے تو بات بہت لمبی ہو جائیگی۔ اس وقت صرف ’’ریمن میگ سائے سائے ایوارڈ‘‘(RAMON MAGSAY SAY AWARD)کا ذکر مطلوب ہے۔
فلپائن کے سابق صدر ریمن میگ سائے سائے 17مارچ1957ء کو طیارے کے ایک حادثے میں انتقال کر گئے تو انکے نام سے یہ ایوارڈ جاری کیا گیا۔ اس ایوارڈ کو ایشیائی نوبل پرائز بھی کہا جاتا ہے۔ اور یہ اپنے شعبوں میں نہایت اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی شخصیات کو دیا جاتا ہے۔ میگ سائے سائے فاؤنڈیشن ہر سال ایشیا کے چالیس ممالک میں سے غیرمعمولی خدمات پر یہ ایوارڈ دیتی ہے۔ مدد ٹریسا، ڈاکٹر محمد یونس، دلائی لامہ، بنگلہ دیش کی سائنسدان ڈاکٹر فردوسی قادریہ، فلپائنی ماحولیاتی کارکن روبرڈوبالون، مہاجرین کی خدمت کرنیوالے ایک امریکی سوشل ورکر سٹیون منسی اور انڈونیشیا کے ایک صحافتی ادارے واجڈاک کے علاوہ کئی غیر معمولی شخصیات کو یہ ایوارڈ مل چکا ہے۔ اس ایوارڈکا خاص طور پر ذکر کرنے کی وجہ وہ خوشی ہے جو اس وقت حاصل ہوتی ہے جب کوئی بڑا اعزاز پاکستان کے حصے میں آتا ہے۔ جب کھیل کے کسی میدان میں کوئی پاکستانی وکٹری اسٹینڈ پر کھڑا ہو کر کوئی میڈل حاصل کرتا ہے،جب کسی شعبے میں نمایاں خدمت انجام دینے والے پاکستانی کو کسی بڑے ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے تو بطور پاکستانی ہمارا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔کیونکہ پاکستان کو ناکام ریاست اور پاکستانیوں کو نا اہل ثابت کرنے کیلئے کئی اطراف سے پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسا بنجر ملک ہے جس میں صلاحیت، کارکردگی اور فتح و کامرانی کی کوئی فصل اُگ ہی نہیں سکتی۔ ایسے میں جب کوئی معتبر اعزاز کیلئے کسی پاکستانی کا انتخاب کیا جاتا ہے تو اپنے پاکستانی ہونے پر فخر محسوس ہوتا ہے۔اس سال یہ ایوارڈ ڈاکٹر محمد امجدثاقب کو دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کو کون نہیں جانتا۔ ’’اخوت‘‘ کے بانی چیئرمین ہیں۔ وہ ایک اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز تھے۔ ایک روز ایک ضرورت مند بڑھیا کو دس ہزار روپے قرض دیکر بھول گئے لیکن کچھ عرصے کے بعد وہ بڑھیا قرض واپس کرنے آئی تو ایک اچھوتا خیال ’’اخوت‘‘ کی شکل میں ابھرا۔ دوستوں سے ذکر کیا تو رقم بڑھتی گئی۔ قرض لینے والوں میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ سب سے حیرت انگیز اور خوش گوار بات یہ تھی کہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں دیانت داری اور اعتماد کو مفقود قرار دیا جاتاہے اسی معاشرے کے ضرورت مند اور غریب لوگ قرض کی ایک ایک پائی واپس کر رہے تھے۔ کاش ہمارے سرمایہ دار، سیاستدان اور حکمران بھی قومی دولت کے حوالے سے ایسی ہی دیانتداری اور فرض شناسی کا مظاہرہ کریں۔
اور آج یہ رقم 50ارب ہو چکی ہے۔ تقریباًپچاس لاکھ خاندانوںکے ڈھائی کروڑغریب مگر محنتی اور ایماندار افراد بلا سود قرض سے سلسلہ روزگار چلا رہے ہیں۔ ’’اخوت‘‘ نے بلا سود قرض دینے کے علاوہ کلاتھ بنک، مستحق بچیوں کی شادیوں کیلئے ضروریات کے سامان کی فراہمی، نفسیاتی مریضوں کیلئے علاج کی سہولیات، خواجہ سراؤں کیلئے باعزت روزگار کے ساتھ تعلیم کے شعبے میں بھی کئی سنگ میل عبور کیے ہیں۔ دنیا بلاسود قرض اور تقریباً سو فیصد واپسی پر حیران تھی ہی اب بغیر فیس اعلیٰ تعلیم کے منصوبوں نے اسے انگشت بدنداں کر دیا ہے۔یہ پاکستان کا وہ روشن چہرہ ہے۔، ہمارے معاشرے کا وہ جھومر ہے جس پرہر پاکستانی کو فخر کرنا چاہیے۔ ریمن میگ سائے سائے صرف ’’اخوت‘‘ یا ڈاکٹر امجد ثاقب کا ہی نہیں ہر پاکستانی کا ایوارڈ ہے۔ جو ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ایسی پاکستانی شخصیات کی ستائش اور ایسے اداروں کے ساتھ بھرپور تعاون کرنے کے علاوہ ہمیں خود بھی ایسے کام کرنے چاہئیں کہ دنیا میں پاکستان کا نام روشن ہو سکے۔ڈاکٹر امجد ثاقب کو بہت سے ایوارڈ مل چکے ہیں۔ ایشیا کی سطح پر یہ بھی ایک بڑا ایوارڈ ہے۔ لیکن ڈاکٹر امجد ثاقب کیلئے اصل ایوارڈ یہ ہے کہ جب کوئی بے روزگار نوجوان اخوت سے قرض لیکر برسرِ روزگار ہو کر با عزت طریقے سے اپنے خاندان کی کفالت شروع کرتا ہے۔ جب کوئی غریب مگر باصلاحیت طالب علم وسائل نہ ہوتے ہوئے اخوت یونیورسٹی سے بغیر فیس اعلیٰ تعلیم کی ڈگری حاصل کرتا ہے۔جب کوئی خواجہ سرا’’اخوت‘‘ کے تعاون سے باعزت زندگی گزارنے لگتا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن