گزشتہ روز یو این او کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں اس وقت انتہائی غیر معمولی صورت حال پیدا ہو گئی جب اسرائیل کے مندوب نے اپنے خطاب کے اختتام پر اچانک فرمائش تھوپ دی کہ تمام ممبران ان 60 لاکھ یہودیوں کی یاد میں کھڑے ہو کر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کریں جو جرمنی میں نازی فوج کے ہاتھوں یا دیگر معرکوں میں مارے گئے۔ اسرائیلی نمائندے کی اس اچانک گزارش پر کچھ ممبران تو فوراً کھڑے ہو گئے مگر زیادہ تر نے کھڑے ہونے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا۔ جیسے ہی وہ خاموشی کا منٹ ختم ہوا اور ممبران اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھ گئے تو چئیر نے فلور کیوبا کی مندوب کے حوالے کیا۔ اس خاتون نے اپنا مائیک آن ہوتے ہی جو کہا وہ ایساکمال کہا کہ اسرائیلی نمائندہ کے چودہ طبق روشن ہو گئے اور مجھے یقین ہے کہ کیوبا کی اس بیٹی نے نہ صرف لاکھوں فلسطینیوں کے بلکہ تمام مسلم امہ کے دل جیت لیے۔اس عظیم خاتون نے چئیر کا شکریہ ادا کرنے کے بعد اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ چئیر کے سوا کسی اور کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ معزز ممبران سے کہے کہ وہ کسی کیلئے کھڑے ہو کر خاموشی اختیار کریں۔ میرا خیال ہے کہ ہم نے ابھی ابھی جو فیصلہ کیا ہے یہ اس کی ایک غلط توضیح پیش کی گئی ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ ایک مرتبہ پھر اس کو manipulate (معاملات کو توڑ موڑ کر اپنا فائدہ نکالنا) کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کمیٹی نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا جو اسرائیل یا یہودیوں کے خلاف یا حمایت میں ہو۔اس خاتون نے مزید کہا کہ میرا خیال ہے کہ اسرائیل کے نمائندے کی جانب سے اجلاس کی کارروائی کو politicize کرنے کی کوشش کی گئی ہے کیونکہ ابھی اسرائیلی نمائندے نے جو کہا وہ تو ایک نئی بحث کا متقاضی ہے جبکہ ہمارے اجلاس میں ایسی کوئی چیز منعکس نہیں ہوتی۔ یہ بات کہہ کے اس پْر وقار خاتون نے ساتھ ہی چئیر سے کہا کہ میں گزارش کرتی ہوں کی ایک مرتبہ پھر سارے ممبران کھڑے ہو ں مگر اس بار فلسطینی شہدا کی یاد میں۔ اور پھر سارے ممبران دوبارہ کھڑے ہو گئے مگر اس مرتبہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے، اور ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی۔بس یہ وہ لمحہ تھا جب ایسا لگا کہ اس اکیلی خاتون نے صرف دو منٹ کے اندر اندر فلسطینی شہدا کا پورا مقدمہ لڑ لیا اور پورے اسرائیل کو ندامت و شرمندگی کے کنویں میں دھکیل دیا اور اسرائیلی نمائندے کی اس پھرتی کو موقع پر ہی ملیامیٹ کر کے رکھ دیا۔ یوں اسرائیلی نمائندے کو منہ کی کھانی پڑی کیونکہ وہ جس چابکدستی سے نازی فوج کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل و غارت پر مظلوم بن کر ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کررہا تھا، اس بے مثال خاتون نے اپنے اس ایک عمل سے اس نمائندے کو نہتے فلسطینیوں پر اسرائیل کے ہاتھوں ہونے والے ظلم و ستم بھی یاد کرا دیئے اور کوئی ادھار رکھا نہ لحاظ کیا اور نہ ہی کسی مسلم ملک کے نمائندے کو آزمائش میں ڈالا کہ وہ اسرائیلی مندوب کی اس حرکت کا اثر زائل کرے۔ اس عظیم خاتون کے اس عظیم عمل پر میں اتنا ہی کہوں گا کہ اس کا یہ عمل اس کی بہترین تربیت کا عملی نمونہ تھا جس میں یقیناً یہ بات بھی شامل تھی کہ ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دو۔ جب آپ کسی عمل پر اپنا فوری ری ایکشن دیتے ہیں تو آپ کا وہ ری ایکشن اپنے اندر ایک پوری داستان لیے نمودار ہوتا ہے۔ آپ کا وہ فوری عمل آپ کی خاندانی تربیت، آپ کی تعلیمی قابلیت اور آپ کے ذہنی معیار کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اور اگر آپ کسی ملک کی نمائندگی بھی کر رہے ہیں تو پھر آپ کی گفتگو یا آپ کا ہر عمل اس ملک کے لوگوں کی عمومی سوچ اور تہذیب و تمدن کی نشاندہی کررہا ہوتا ہے۔اس قابل صد ستائش خاتون کا تعلق کیوبا سے ہے۔ تقریباً ایک کروڑ تیرہ لاکھ کی آبادی والا یہ چھوٹا سا ملک نہ ہی امیر ملکوں میں شمار ہوتا ہے اور نہ کسی کے آگے کشکول لیے پھرتا ہے۔ اس ملک میں انقلاب کے بانی 1959ء سے 2008ء تک اس پر حکومت کرنے والے کیمونسٹ لیڈر فیدل کاسترو تھے جن کی وجہِ شہرت ہی امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا تھی۔ امریکہ کی بغل میں بیٹھ کر اس نے امریکہ سے شدید دشمنی نبھائی جس کے نتیجے میں امریکہ نے کاسترو کو مروانے کی بہت کوششیں کیں اور کیوبا کو بے شمار پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر اس نے جھکنا تھا نہ وہ جھکا۔ اس ملک کی جرأت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں کرپشن نام کی کوئی چیز نہیں۔ نہ ان کے حکمران کرپٹ ہیں اور نہ عوام کرپٹ حکمرانوں کو برداشت کرتے ہیں، لہٰذا جس قوم کی تربیت ایسی ہو اس میں جرأت ہونا ایک قدرتی بات ہے۔