ندیم بسرا
ملک کی سیاسی جماعتوں کے لیڈرز کے رویوں سے بعض دفعہ ایسا لگتا ہے کہ وہ اب ایسی بات کردیں گے جس سے شاید کوئی طوفان برپا ہوجائے مگر جب بات کرتے ہیں توبیان بعض دفعہ مذاق لگتا ہے کیونکہ ایسے بیانات یا تو اپنی صفائی یا اپنی جماعت کی برتری بیان کرنے کے لئے دیئے جاتے ہیں، اور عوام بھی ان بیانات کے دھوکے میں آجاتے ہیں۔اب اس قسم کے بیانات حکومت اور اپوزیشن دونوں کی طرف سے داغے جارہے ہیں۔وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کا کہنا ہے کہ "کہ پاکستان کے عوام شریف فیملی سے لوٹی ہوئی دولت کی ریکوری چاہتے ہیں۔ شہباز شریف کا کیس روزانہ کی بنیاد پر چلے تو وہ اگلے چھ ماہ میں کم از کم 25 سال کے لئے جیل جا سکتے ہیں" اود دوسری طرف اپوزیشن لیڈر مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کا کہنا ہے "کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں ایک بار پھر اپنے فضل سے سرخرو فرمایا۔ پاکستان ہی نہیں برطانیہ کی عدالتوں میں بھی ایک دھیلے کی کرپشن کا کا الزام ثابت نہ ہو سکا۔ جھوٹ نے آخری مٹنا ہی ہوتا ہے اور سچائی ثابت ہو کر ہی رہتی ہے"۔اب اس طرح کے بیان عوام کو مذاق ہی لگے گے یا عوام انہیں مذاق سمجھے گی یا پارٹی لیڈرز کے بیان پر پہرہ دیں گے۔اس سیاست میں گروہ کا اصل سرا تو عوام کے پاس ہیں وہ اس کو کیسے سلجھاتے ہیں یہی کام ہے۔مگر یہ طریقہ ختم ہونا چاہیے اگر کسی کے خلاف کیسز عدالتوں میں ہیں تو اخلاقی طور پر اس پر بات اس وقت تک نہیں ہونی چاہیئے جب تک اس کیس کا فیصلہ معزز عدالت کرنہیںدیتی۔مگر ان اخلاقیات کا خیال ہماری جماعتوں کے سیاست دانوں نے رکھنا ہے۔خیر اور باتیں بھی ملک میں ہورہی ہیں جو دوہزار تئیس کے الیکشن کے حوالے سے ہیں۔کیا تمام سیاسی جماعتیں بشمول حکومتی جماعت عام انتخابات کے لئے تیار ہیں؟۔یہ بڑا اہم سوال ہے کیونکہ ضمنی انتخابات،گلگت بلتستان،کشمیر الیکشن اور کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں اگر صرف جیتنے کی بات کی جائے تو عمران خان پر اعتماد کرتے ہوئے ان کے امیدواروں کوکامیاب تو کرایا ہے مگر وہ تبدیلی جس کے خواب عوام کو دکھائے جارہے تھے اس حساب سے عملاً بہت کم چیزیں نظر آتی ہیں۔ان انتخابات میں حکومت کی کامیابی بس شکست کے قریب تر ہو کر ملی ہے۔بس ایکسڈینٹ ہوتے ہوتے رہ گیا اور کہتے ہیں "بال بال بچ گئے "۔جس کو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ عوام کی نبض پر پی ٹی آئی کا ہاتھ ہے۔دوسری طرف ملک کی دیگر جماعتیں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی،ایم کیو ایم،جماعت اسلامی،جے یو آئی ف ،پاکستان مسلم لیگ ،اے این پی سمیت بھی اسی طرح کا نقشہ اور کارکردگی پیش کررہی ہیںجسے خلاصہ کہا جاسکتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بلاول بھٹو زرداری پارٹی کا مثبت امیج بنانے کے لئے بہت محنت کررہے ہیں سوال یہ ہے کیا یہ محنت صرف علاقائی جماعت بنانے کے لئے کی جا رہی ہے۔یا قومی سطح کی جماعت کے لئے کوششیں ہورہی ہیں۔ یا اس میں ان کے نانا ذوالفقارعلی بھٹو شہید یا ان کی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا عکس بھی بھی نظر آتا ہے یہ فیصلہ خود عوام نے کرنا ہے کہ پیپلزپارٹی کو سندھ کی جماعت تسلیم کرنا ہے یا پورے ملک کی جماعت ماننا ہے۔اب مسلم لیگ ن کی بات کریں "ووٹ کو عزت دو " کا بیانیہ کیا واقعی مسلم لیگ ن کا بیانیہ ہے یا صرف مریم نواز اس بیانئے پر پہرہ دے رہی ہیں ایک گھر کے افراد جن کی مسلم لیگ ن اپنی جماعت ہے تو اس جماعت کی اہم لیڈر مریم نواز اور حمزہ شہباز کا ایک "معاملے" پر الگ الگ بیان دینا ان کے اختلافات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جس پر کئی سوال اٹھتے ہیں کہ پارٹی لیڈرز سوچ سمجھ کر میڈیا میں بات کریں۔دوسری جانب شہباز شریف پارٹی میں "شہباز کرے پرواز" والی بات نظر نہیں آتی۔جماعت میں شاہد خاقان عباسی،خواجہ آصف،محمد زبیر اور اب تو شہباز شریف کے خاص سمجھے جانے والے رانا ثناء اللہ بھی شہباز شریف سے دور جاتے نظر آتے ہیں۔تو سیاسی جماعتیں بھی اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی تو اپوزیشن کی جماعتیں ہیں۔خود تحریک انصاف میں بھی اس قسم کے مسائل ہیں پہلے جہانگیر ترین کا گروپ بنانا اور اب سنیئر وزیر عبدالعلیم خان کا سیاست سے کنارہ کشی کا اشارہ خود ایک سوالیہ نشان ہے کہ عمران خان کے قریب سمجھے جانے والے عبدالعلیم خان اب کیوں جماعت سے دور ہو گئے ہیں یہی نہیں وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کے خلاف بھی پنجاب میں محاذ گرم ہی رہتا ہے، آئے دن ان کی تبدیلی کی خبروں سے ایسا ہی لگتا ہے اور اس وثوق سے خبریں ہم تک پہنچتی ہیں جس سے یہی گمان ہوتا ہے کہ وزیراعلی پنجاب چند گھنٹوں کے مہمان ہیں۔ ابھی نئے وزیر اعلی کا نام وزیر اعظم اناونس کردیں گے۔اور ان خبروں یا افواہوں کا رکنا بھی کم نہیں ہوتا، بعض ذرائع ابلاغ مسلسل یہ پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں۔اگر ان حالات میں دوہزار تیئس کے الیکشن کی تیاریوں کی بات کریں تو سبھی جماعتوں کو پہلے اپنا گھر کی تیاری پر توجہ دینا ہوگی کہ وہ اس پر پورا اترتی ہیں یا نہیں ۔جب تک جماعتیں اپنا قبلہ درست نہیں کریں گی عوام کے مسائل "مہنگائی " "مہنگائی" "مہنگائی " کو ختم کرنے کے عملی اقدامات نظر نہیں آئیں گے اور عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دب جائیں گے تب یہ نعرے جو خود لیڈروں کے منہ سے نکلتے ہیں، عوام میں ان نعروں کے جواب میں"انقلاب" "انقلاب " کے نعرے بلند ہونا شروع ہو جائیں گے۔۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛