پچھلے چند سالوں کے دوران کھانوں چکنائی اور تیل کے استعمال کے بارے میں سوچ میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔حال ہی میں یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ جزوی طور پر ہائیڈروجن ملے ٹرانس ویجٹبل آئلز کا استعمال زیادہ ہو رہا ہے اور ان تیلوں کے استعمال میں کمی آئی ہے جن میں لاریک ایسیڈ شامل ہوتا ہے۔شائع شدہ تحقیق سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ سیرم کولیسٹرول کی بلند سطح سے دل کی شریانوں کی بیماری (CHD) کا خطرہ بڑھ گیا ہے،جو کھانوں میں سیچوریٹیڈ چکنائی کے زیادہ استعمال کا نتیجہ ہے۔زیادہ تر ترقی پذیر ممالک لاگت اور صحت کے خدشات کے باعث جانوروں کی چربی کی جگہ ویجیٹیبل آئل کے استعمال کی کوشش کر رہے ہیں۔ان میں سب سے اہم تبدیلی پام آئل کی ہے،جس میں نہ صرف سیچوریٹیٹیڈ چکنائی ایسیڈز کا جزو50فیصد اور پام کرنیل آئل80فیصد ہے بلکہ اسے glycerol سے تبدیل بھی کیا گیا ہے۔غذائی چکنائی کے ذریعے کے طور پر پام آ ئل کے استعمال کی حوصلہ افزا حقیقت یہ ہے کہ اگر اسے صحت بخش غذا میں معتدل مقدار میں استعمال کیا جائے تو دل کی شریانوں کے مرض میں کوئی اضافی خطرہ پیدا نہیں ہوتا۔2020/21 کے مارکیٹنگ سال میں پام آئل کی عالمی پیداوار72.27 ملین میٹرک ٹن کے قریب تھی جو 2019/20 کے سال میں لگ بھگ 73.23 ملین میٹرک ٹن سے کم ہے۔دنیا کا 90فیصد پام آئل انڈونیشیا اور ملائشیا میں پیدا ہوتا ہے،جب کہ باقی10فیصد افریقا، بھارت اور چین میں پیدا ہوتا ہے۔ ویجیٹیبل آئل کی بہت زیادہ پیداواردینے والی فصل اسے انتہائی موثر اور مقبول بناتی ہے۔تیل پیدا کرنے والی دوسری فصلوں (یعنی سورج مکھی،سویا بین اور ریپ سیڈ) کے مقابلے میں اتنی ہی مقدار میں تیل پیدا کرنے کے لیے پام آئل کی کاشت کے لیے نصف اراضی کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ خوبی اسے دنیا کا سب سے باکفایت ویجیٹیبل آئل بناتی ہے۔پام آئل پچھلے پانچ ہزار سال سے زیادہ عرصہ سے کھانا پکانے میں استعمال ہو رہا ہے اور آج بھی یہ دنیا کی تیل اور چکنائی کی مارکیٹ میں ایک خطیر حصہ ڈالتا ہے۔پام آئل اور اس کی مصنوعات کی غذائی افادیت ثابت کرنے کے لیے ملائشین پام آ ئل بورڈ(MPOB) کی محتاط طریقے سے تیار کی گئی تحقیقی حکمت عملی نے جانوروں اور انسانوں میں کثیر الجہتی غذائی آزمائشوں کو توجہ کا محور بنایا۔بیرون ملک بائیو میڈیکل سینٹرز آف ایکسلنس میں تعاون پر مبنی پراجیکٹس شروع کیے گئے جن میں پام آئل کا موازنہ مختلف ممالک میں استعمال کیے جانے والے مقامی تیل سے کیا گیا۔نتائج نے ظاہر کیا کہ پام آئل مقامی تیل کی طرح ہی بہتر ہے،بعض صورتوں میں یہ اپنے کولیسٹرول رد عمل میں یہ دوسرے تیلوں اور چکنائی کے مقابلے میں،جن کو اسٹڈی کا حصہ بنایا گیا، کہیں زیادہ بہتر ہے۔ان اسٹڈیز سے جو نتائج سامنے آئے وہ صرف پام آئل اور اس کی مصنوعات کی غذائی افادیت ہی کو ظاہر نہیں کرتے بلکہ خورنی تیل کی سائنس میں عبور اورCHD پرfatty acid کے اثرات کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ان اسٹڈیز کے نتائج نے پام آئل کو اپنا مارکیٹ شیئر بڑھانے میں مدد دی ہے اور اسے ایک محفوظ اور غذائیت سے بھرپور تیل کی پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے۔trans fats کے غیر صحت مند ہونے پر عالمگیر توجہ نے بھی ایک صحت بخش فطری متبادل کے طور پر پام آئل کے لیے مزید دروازے کھولے ہیں۔ماضی میں پام آئل کو "saturated" قرار دے کر اس پر تنقید کی گئی اور کہا گیا کہ چونکہ اس میں 44فیصد palmitic acid اور پانچ فیصدstearic ایسیڈ ہے،اس لیے یہ مبینہ طور پر خون میں کولیسٹرول کو بڑھاتا ہے اور امراض قلب کے خطرے میں اضافہ کرتا ہے۔تاہم،بڑی تعداد میں سائنسی شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ دوسری چکنائیوں اور تیلوں کے مقابلے میں بلڈ کولیسٹرول پر پام آئل کا اثر نسبتاً نیوٹرل ہوتا ہے۔پام آئل صرف اسی صورت میں پلازما کولیسٹرول بڑھاتا ہے جب غذا میں ڈائٹری کولیسٹرول کی مقدار زیادہ ہو۔
پام آئل میں مختلف اجزا شامل ہیں،جو مثبت اور صحت بخش غذائی اجزا ہیں مگر بعض حلقوں نے ہمیشہ اس کے خلاف منفی مہم چلائی ہے۔پام آئل کے بارے میں ایک بہتر سمجھ بوجھ پیدا کرنے کے لیے ذیل میں ان اجزا کی تفصیل دی گئی ہے جو تحقیق سے ثابت ہو چکے ہیں۔ الف)Coenzyme Q :جسے وسیع پیمانے پر تجویز کیا جاتا ہے،پام آئل میں ایک قدرتیcoenzyme ہے۔دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس میں وٹامنE سے دس گنا زیادہ antioxidant پراپرٹی ہے۔ایک طاقت ور antioxidant اور فری ریڈیکل scavenger ہونے کے علاوہ Coenzyme Q،mitochondrial electron ٹرانسپورٹ چین میں بھی ایک اہم کردار ادا کرتا ہے اور اس نے ظاہر کیا ہے کہ اس میں جھلی کو مضبوط بنانے کی خاصیت ہے۔اسے دل کی کئی بیماریوں کے علاج میں استعمال کیا گیا ہے اور اسٹڈیز سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس میں سرطان مخالف اثرات موجود ہیں۔مزید برآں،اس میں Squaleneکے کچھ اثرات بھی پائے گئے ہیں،یہ ایک آکسیجن transmitter ہے جو دل کی صحت میں مدد دے سکتا ہے۔ب) Phytosterols :قدرتی طور پر پایا جانے والا جزو ہے جو تمام پودوں میں موجود ہوتا ہے اور یہ بھی I3-sitosterol campesterol,l اورstigmasterol کے طور پر خام پام آئل کا جزو ہوتا ہے۔پامphytosterols کی ایک نمایاں اہمیت ان کی کولیسٹرول کم کرنے کی خاصیتیں ہیں۔تحقیق نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ ان میں سرطان کی مزاحمت کرنے والی خاصیتیں بھی ہوتی ہیں اور یہ مدافعت کے افعال کو بڑھاتی ہیں۔ج) Phospholipids :مین بلڈنگ بلاکس بناتے ہیں، یہ lipoproteins اور حیاتیاتی جھلیوں کے لازمی اجزا ہوتے ہیں اور دماغ کے افعال،توانائی کو برقرار رکھنے،خلیوں کے ڈھانچے کو یکجا رکھنے،نظام ہضم کو سہل رکھنے اور غذائیت کو جسم کا حصہ بنانے کے لیے ناگزیر ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ،پام آئل نہ صرفSFAs بلکہ carotenoids اورtocotrienols سے بھی بھرپور ہے جو دیگر اجزا کے امکانی منفی اثرات کو ردکر سکتے ہیں اور صحت کے متعدد اضافی فوائد فراہم کرتے ہیں۔
بقاء کی صلاحیت کا تصور برسوں میں پیدا ہوا ہے۔شروع میں Brundtland رپورٹ میں بقاء کے تصور کی تشریح اس طرح کی گئی" مستقبل کی نسلوں کی ضروریات کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر حال کی ضروریات کو پورا کرنا"۔فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن(FAO) نے بقاء کے تصور کو قابل بقاء غذائیت کی اس طرح تشریح کرتے ہوئے اسے خوراک کے دائرے تک پھیلا دیا" وہ جو کم ماحولیاتی اثرات پیدا کرتی ہیں اور ایک صحت مند زندگی گزارنے کے لیے حال اور مستقبل کی نسلوں کے لیے فوڈ سیکیورٹی اور غذائیت میں حصہ ڈالیں۔اس کے علاوہ وہ جو حیاتیاتی تنوع اور ایکو سسٹمز کا تحفظ اور احترام کریں اور ثقافتی اعتبار سے قابل قبول، قابل رسائی،معاشی لحاظ سے منصفانہ اور با کفایت اور تغذیاتی طور پر کافی،محفوظ اور صحت بخش ہوں اور قدرتی اور انسانی وسائل کو زیادہ سے زیادہ حد تک بڑھائیں "۔
اقوام متحدہ نے انہی خطوط پر 2015-2030 کی مدت کے لیے پائیدار ترقی کے سترہ مقاصد مقرر کیے ہیں۔ مقصد نمبر12 خاص طور سے پائیدار پیداوار اور استعمال کا حوالہ دیتا ہے۔مقصد نمبر3 اور6 میں بھی ایسے مختلف پہلو ہیں جو خوراک کی پیداوار اور خوراک اور صحت کے درمیان تعلق کو متاثر کرتے ہیں۔دنیا کی آبادی سال2030 تک 8,600 ملین اور سال2050 تک 9,800 ملین تک پہنچ جائے گی،جس سے یقینی طور پر بقاء کا مسئلہ پیدا ہو گا۔پام آئل پر بحث دنیا کی آبادی کے لیے خوراک پیدا کرنے کی پیچیدگی کی ایک مثال ہے جو پچھلے ایک سو سالوں(1920-2020) میں چار گنا ہو گئی ہے اور خاص طور سے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں مسلسل بڑھ رہی ہے۔اگر پام آئل یا خوراک کی پیداوار میں اس کی مختلف اقسام کے بارے میں کوئی شبہ ہے تو اس کے بارے میں مزید تحقیق کرنا بہتر ہو گا تاکہ انسانی صحت میں پام آئلز کا کردار واضح ہو سکے۔حقیقت یہ ہے کہ ایک متوازنdiet کی حدود کے اندر رہ کر پام آ ئل کا استعمال ان دوسری چکنائیوں کے مقابلے میں ہماری صحت کے لیے اتنے خطرات پیدا نہیں کرتا جتنا کہ فوڈ انڈسٹریز کی طرف سے عام طور پر استعمال کیے جانے والے fats کرتے ہیں۔سازگار تحقیق اور اسٹڈیز کی مدد سے ہمیں اس صحت بخش اور با کفایت ویجٹیبل آئل کے بارے میں مفروضوں کو توڑنا چاہیئے اور اس کے غذائی اجزا سے صحت کے فوائد حاصل کرنے کے لیے اسے اختیار کرنا چاہیئے۔