بہت بڑا حادثہ ہوا ہے۔ عمران خان صاحب نے پانچ چھ مہینے کی شبانہ روز محنت سے جو ”ٹوِن ٹاور“ حقیقی آزادی اور مریکی سازش کے نام سے بنائے تھے، وہ آڈیو لیک کے ایک ہی ڈرون حملے میں زمین بوس ہو گئے اور اس کا ملبہ سوشل میڈیا پر بکھرا پڑا ہے جبکہ ”ریسکیو“ والے تو نظر ہی نہیں آ رہے۔ پتہ نہیں ایک ہی ڈرون حملے میں یہ فلک بوس ٹوِن ٹاور ایسے کیسے زمیں بوس ہو گئے۔ یا تو ڈرون بہت ہی تگڑا ہو گا یا پھر یہ ٹاور ریت سے بنے ہوں گے۔ ریت سے ٹاور بننا کوئی ناممکن بات نہیں۔ بہت پہلے احمد ندیم قاسمی (مرحوم) نے ا یک آزاد نظم لکھی تھی جس کا عنوان اور پہلا مصرعہ یوں تھا کہ
ریت سے بت نہ بنا اے میرے بھولے فنکار
یہاں کا ماجرا یوں ہوا کہ ”بھولے“ فنکار نے بت کے بجائے ٹاور ہی بنا ڈالے۔
_________________
خیر، خان صاحب کو بھولا فنکار تو نہیں کہا جا سکتا۔ بہت کائیاں ہیں۔ آڈیو لیکس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کے لیے کائیاں کا لفظ بھی چھوٹا ہے۔ دیکھئے اعظم خان کا ”لیکچر“ سنتے ہی بات کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں اور مصرعہ لگاتے ہیں کہ پھر ایسا کرتے ہیں کہ اسے سازش بنا دیتے ہیں۔ اعظم خان اس مصرعہ پر یہ گرہ لگاتے ہیں کہ ہاں منٹس میرے پاس ہیں، اپنی مرضی کے منٹس بنا کر تجزیہ بنا لیتے ہیں۔
یوں یہ شعر مکمل ہو گیا۔ ٹاور بنے، پانچ چھ ماہ خوب آن بان ٹھان دکھائی، پھر فان کی سان پر چڑھ گئے۔ کل من علیہا فان!
_________________
کچھ کا کہنا ہے کہ ٹاور ریت نہیں، کانچ سے بنے تھے۔ محاورہ ہے کہ سانچ کو آنچ نہیں۔ لیکن کانچ کو آنچ تو ہے۔ مطلب کانچ کا کھانچ کھڑا کیا، ایسی ”آنچ“ آئی کہ ڈھانچ بھی نہ ملا۔
اب خان صاحب کو نئے ٹاور، مطلب نیا بیانیہ درکار ہو گا۔ پچھلے سب بیانیے اعظم خان بناتے تھے کہ پارٹی کا واحد تھنک ٹینک وہی تھے۔ اطلاع یہ ہے کہ اب وہ دستیاب نہیں ہیں۔ کون بیانیے کا ٹاور کھڑا کرے گا۔ اسد عمر اور فواد چودھری تو یہ کام نہیں کر سکتے۔ ان کا کام اب تک بیانیوں کا دفاع کرنا رہا ہے، بیانیے بنانا نہیں۔
شاید کوئی غیبی مدد کو پہنچے۔ لگتا تو نہیں لیکن آس پر دنیا قائم ہے۔
_________________
خان صاحب اس آڈیو میں یہ کہتے بھی پائے گئے کہ ہم اس سازشی کارڈ سے کھیلیں گے۔ آڈیو ڈرون کا ”بڑا وارہیڈ“ یہی تھا۔ ایک صحافی نے خان صاحب سے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوںکہا۔ صحافی کا خیال تھا کہ خان صاحب کھسیانے ہو جائیں گے، کوئی جواب نہیں دے پائیں گے اور چپ سادھ لیں گے۔
لیکن خان صاحب ایسے ”سادھ“ کہاں کہ چپ سادھ لیتے،ترنت فرمایا کہ ابھی کہاں کھیلا۔ اب کھیلوں گا۔ ساتھ ہی شرط لگا دی کہ اگر حکمرانوں نے ایکسپوز کیا تو کھیلوں گا۔
یعنی جو کچھ ہوا ہے‘ ابھی ”ایکسپوز“ کرنے کے ضمن میں نہیں آتا۔ ہاں ”اب کے مار“ کا محاورہ یہاں نافذالعمل کیا جا سکتا ہے۔
ویسے خان صاحب‘ آپ کی اس بات سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ آپ کھیلے نہیں۔ آپ پانچ ماہ خوب کھیلے‘ ملکی مفادات کی سب وکٹیںاڑا دیں۔ اب اس سے آگے کیا کھیلیں گے۔ ویسے بھی کھیلنے کی باری آپ لے گئے۔ اب کوئی اور کھیلے گا ”ایکسپوز“ کرنے کی بات کچھ یوں ہے کہ وہ نئے کھیلنے والوں کی مرضی پر منحصر ہے۔ ویسے رانا ثناءاللہ بتا چکے ہیں کہ کچھ ایسی ویسی ویڈیوز بھی ہیں جو دکھانے کے قابل نہیں ہیں۔ شاید بتانے کے قابل ہوں؟
ایسی ویسی کے معنے پتہ نہیں کیا ہیں۔ پی ٹی آئی کے ابوالمعانی شاہ محمود قریشی سے پوچھنا پڑے گا۔ ٹوِن ٹاورز دو محمودوں یعنی ”محمد دین“ نے بنایا۔ ایک محمود یعنی محمود خان تو داغ مفارقت دے چکے‘ دوسرے محمود شاہ قریشی ہنوز مصاحبت میں ہیں۔ غنیمت بات ہے‘ دیکھئے غنیمت سے کب غنیم میں بدلتے ہیں کہ اس مضمون کی افواہیں بھی اِدھر اُدھر سے آرہی ہیں۔
_______________
افواہوں کا ذکر چلا تو سن لیجئے کہ مارشل لاءچند دنوں سے لگانے کی افواہیں پھیلانے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے‘ لیکن بوجوہ کامیابی نہیں ملی۔ سراغ لگایا تو پتہ چلا کہ افواہوں کی ساری ٹرانسمیشن ایک ہی ٹاور سے ہو رہی ہے۔ ایک دو اینکر پرسن‘ دو تین بلاگر اور امریکہ میں مقیم پاکستان کے انگریزی اخبار والے سابقہ صحافی۔
افواہوں کے متن پرغور سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اطلاع نہیں دی جا رہی‘ اظہار تمنا کیا جا رہا ہے۔ ایک معروف اینکر پرسن نے البتہ اطلاع دی کہ مارشل لاءایک سینٹی میٹر دور رہ گیا ہے اور قومی سلامتی کمیٹی کے دوسرے اجلاس میں فیصلہ ہو جائے گا۔
دوسرا اجلاس ہوئے آج تیسرا روز ہے۔ سنیٹی میٹر کچھ زیادہ ہی لمبا نہیں ہو گیا؟
_______________
احسن اقبال نے کیا سخاوت بھرا مطالبہ کیا ہے۔واللہ منہ چوم لینے کو دل کرتا ہے۔ فرمایا کہ عالمی منڈی میں پام آئل کی قیمت کم ہو گئی۔ یہاں بھی گھی ایک مہینے کے اندر اندر 20 روپے کلو سستا کر دیا جائے۔
عالمی منڈی میں گھی کی قیمتیں 50 فیصد سے بھی کم رہ گئیں۔ اس لحاظ سے پاکستان میں گھی اڑھائی سو روپے کلو کم ہونا چاہئے‘ محض 20 روپے کیوں؟ اور ایک مہینے کے اندر اندر کے الٹی میٹم کا تو کیا ہی کہنا۔
احسن اقبال ایک سراسر جھوٹے مقدمے میں گرفتار ہوئے اور تکلیفیں اٹھا کر بھی ثابت قدم رہے۔ آخر سرخرو ہوئے۔ اسی سرخروئی کی خوشی میں انہیں مطالبے کی رقم 20 روپے سے کچھ زیادہ نہیں کرنی چاہئے تھی؟
قصّہ فلک بوس کے زمین بوس ہونے کا
Sep 30, 2022