شروع دن سے ہمارے ملک میںمنصوبہ سازی اور ملکی مسائل کے حل کے لیے عوام کی رائے کو ہمیشہ سے غیر متعلق ہی سمجھا جاتا رہا ہے جبکہ دوسری طرف عام دن ہویا الیکشن کے دن سیاسی کارنر میٹنگز کا انعقاد،جلسوں میںافراد کو لانااور سیاسی نعرے بازی کرنا بھی عوام کے ذمے ہوتا ہے ۔سیاسی نظریات کے اختلافات کو ذاتی جھگڑوں کی شکل دینے کا فن بھی معصوم عوام ہی جانتے ہیں اور پھر الیکشن کے دنوں کے جھگڑوں کو اگلے پانچ سال تک عدالتوں میں بھگتانے کا حوصلہ بھی اسی عوام میں پایا جاتا ہے جبکہ اپنے مالی اور جانی نقصان کا بوجھ بھی انہی کے حصے میں آتا ہے۔بد قسمتی سے پسندیدہ سیاسی قائد کی محبت میں مذہبی،اخلاقی اورمعاشرتی قدروں کو روند ڈالنا بھی اسی عوام کے مزاج کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اتنے سارے کام کرنے کے بعد کیاعوام کو اگلے پانچ سال مکمل آرام نہیں ملنا چاہیے؟ کیا ان کے مسائل حل نہیں ہونے چاہئیں؟ تاکہ ذہنی طور پر غلام افراد کا یہ گروہ جس کو ہم قوم کہتے ہیں اگلے الیکشن میں تازہ دم ہو کر پھر سے ریموٹ کنٹرولڈ روبوٹ کی طرح سیاسی آقاﺅں کے تفویض کردہ کام سرانجام دے سکے۔ دوسری طرف حالت یہ ہے کہ اُن کے محبوب سیاسی قائدین الیکشن کے بعدآپس میں مل کر شیر و شکر ہوتے ہیں، ’ملک کے وسیع مفاد‘ میں میٹنگز بھی کرتے ہیں،کھانے بھی اکٹھے کھاتے ہیں ،اسمبلی میں یا اسمبلی سے باہر اپنے مفادات کے تحفظ اور مراعات کے حصول کے لیے بھی ایک ہوتے ہیں۔
پاکستان میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے ملکی سیاسی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔معیشت کی تباہی اور سیاسی دنگل نے ملک کو نازک صورت حال میں داخل کر دیا ہے جبکہ سیاسی رہنما اور ادارے بھی آپس میں دست وگریباں نظر آتے ہیں۔دوسری طرف اس بار بھی پہلی حکومتوں کی طرح پی ڈی ایم حکومت کی اب تک کی راگنی نے سب کو نہ صرف حیران کردیا بلکہ زیادہ پریشان کیا ۔اس حکومت نے بھی ماضی کی طرح عوام کے مفادکوایک بار پھرپس پشت ڈالا کیونکہ حکومت کے بقول اُن کی سرکاری پٹاری میں بچا ہی کچھ نہیں تھاجبکہ اپوزیشن دور میں عوام سے کیے گئے کئی وعدوں پر پی ڈی ایم حکومت نے بہت تیزی سے یوٹرن لیا۔ان میں بجلی اورسوئی گیس کی لوڈ شیڈنگ اور بڑھتے ریٹ کی بات ہو،پٹرول سستاکرنے کی بات ہو،مہنگائی قابو میں رکھنے کی بات ہو،ملکی معیشت بچانے کی بات ہویا عدالتوں سے انصاف دینے کی بات ہو۔ حکومتی اراکین کے بقول عوام کو سہولت دیناحکومت کی اولین ترجیح ہے اور اس ترجیح کے حصول کے لیے ،چاہے عوام مسلسل قربانی کی بھینٹ چڑھائے جاتے رہیں ۔سیاست کے منجدھار میں پھنسی ریاست پاکستان میں اپوزیشن کی حالت یہ ہے کہ دل میں بغض،زبان پر گالی ،اداروں پر طعن و تشنیع مگرٹرانس جینڈر بل پر مصلحت کے تحت خاموشی،قومی اسمبلی کی نشستوں سے مستعفی مگر ضمنی انتخابات میں شرکت ،ملک میں تباہی و بربادی مگر جلسوں میں کھلے اخراجات اور اب تو حالت یہ ہے کہ تسبیح پر تسبیح اور طواف پرطواف ہے اور اس پرکعبہ خود چکر میں ہے کہ یہ لوگ کس چکر میں ہیں۔سجدہ خالق کو بھی،ابلیس سے یارانہ بھی۔حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟۔افسوس پاکستانی سیاست میںرفتہ رفتہ اخلاقی قدریں اور انسانیت کا درد، سیاسی رنگ بازیوں کی نذرہو گیا۔خود فریبی کا شکار ہونا،ریگستان پر نخلستان کا گمان کرنا،خود ستائشی کا نشہ،ظل سبحانی کی اکڑ،شہنشائیت کا اثر،میرا پیٹ بھرو، مجھے او ردو ،ابھی بھوک ختم نہیں ہوئی،ٹھونستے جاﺅ،”ہل من مزید“۔آہ! کیا حرص ہے، اس انسان کی۔اگرچہ اس کی کائنات میںکوئی حیثیت بھی نہیں،پھر بھی؟۔پل کا نہیں پتا اور صدیوں کا سامان اکٹھا کرتا ہے۔یاد رکھیں!جس پر رب کا کرم ہو وہ کرم والا بندہ بن جاتا ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ اقتدار کا نشہ ،چیز ہی ایسی ہے کہ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ ظالم لگی ہوئی۔مسند اقتدار پر آسمانوں کی بلندیاں بھی پست نظر آنے لگتی ہیں،پہاڑ بھی بونے دکھائی دینے لگتے ہیں،راحت و سرور کی زندگی میں مخملی لباس بھی چبھنے لگتے ہیں،نازک جسم اور بھی سہل پسند ہو جاتے ہیںاورایسے میں اگر بے قیمت لوگ مقرب بن جائیںتو اقتدار کے بد مست قدم ڈولنا شروع ہو جاتے ہیں۔تیل کی قیمت میں اضافہ ہو،مہنگائی کا طوفان ہو، برطانیہ میں مریم اورنگ زیب کے ساتھ شرمناک رویہ ہو ،عمران خان کی طرف سے الزامات کی بھرمار ہو،میڈیا کو حکومتی للکارہو،مریم نواز کی صحت کارڈ بند کرنے کی تجویز ہو،نئے چیف آف آرمی کا چناﺅ ہو، یا آڈیو لیکس کا معاملہ ہوحکومت اس وقت شدید دباﺅ میں ہے۔یاد رکھو!اب بھی وقت ہے،زنجیرجہانگیری کو ہلا دو۔تیری آہوں پہ مسیحا کو ہنسی آتی ہے،اس سے زیادہ بھی تماشے کی تمنا ہے تجھے۔
دنیا میں ذلت و رسوائی اور آخرت میں زبردست دھلائی۔کو بہ کوُپھیل گئی بات شناسائی کی،بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔یاد رہے!چندحکومتی معاملات ابھی بھی حل طلب ہیں۔افسوس ! شہباز شریف کو نون لیگ کا کوئی ارسطو اورعمران خان کو پی ٹی آئی کا کوئی ارسطو مشورہ بھی نہیں دے رہا کہ آپس کی لڑائی سے باہر نکلیں اور ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کی سوچ پر عمل کریں۔
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
Sep 30, 2022