دہر میں اسم محمدؐ سے اُجالا کردے


بہت ہی عظمت و شان اور فضیلت و بزرگی کا حامل ،اسلامی تقویم کے تیسرے مہینے ، ربیع الاوّل 1444ھ کا آغاز ،(بدھ،28 ستمبر 2022ء ) کو ہوگیا ہے۔ پیغمبرِ انقلاب ، خاتم النبین صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ مومن کے معاملے پر تعجب ہے کہ اِس کا سارا معاملہ بھلائی پر مشتمل ہے اور یہ صرف اُسی مومن کے لئے ہے جسے خوشی حاصل ہوتی ہے تو شکر کرتا ہے ۔ کیوں کہ اِس کے حق میں یہی بہتر ہے !۔ (صحیح مسلم) ‘‘ ۔ معزز قارئین ! 12 ربیع الاوّل کو پاکستان سمیت دُنیا کے سبھی مسلمان ملکوں میں عاشقان ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اپنے رنگ اور ڈھنگ میں عید میلاد اُلنبی ؐمنائیں گے۔ مَیں نے کوشش کی ہے کہ ’’ آج کے کالم میں قادریہ سلسلہ کے بانی غوث اُلاعظم ‘‘ حضرت شیخ عبداُلقادرجیلانیؒ ، چشتیہ سلسلہ کے نامور ولی خواجہ غریب نواز، نائب رسولؐ فی الہند حضرت معین اُلدّین چشتیؒ ، فارسی زبان کے نامور صوفی شاعر شیخ سعدی شیرازی ؒ ، عاشق رسولؐ اور شاعرِ مشرق ، علاّمہ محمد اقبالؒ کا کلام پیش کروں اور اپنی ایک نعت ِ رسول مقبولؐ بھی ۔ ملاحظہ فرمائیں ۔ علاّمہ محمد اقبالؒ نے اپنی نظم ’’ جواب ِ شکوہ‘‘ میں دُنیا بھر کے مسلمان بادشاہوں اور ہر مُلک کے متمول مسلمان کو ربِ عظیم کا یہ پیغام پہنچایا تھا کہ 
’’قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے!
دہر میں اسم محمد ؐسے اُجالا کردے!‘‘
یعنی ’’ اپنے عشق کی قوت سے ہر پستی کو اوپر لے جا اور اِس دُنیا میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کے نام مبارک کی روشنی پھیلا دے !‘‘۔ 
معزز قارئین ! بہت سے اولیاء کرامؒ نے عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سے ہر مسلمان کو اِسی طرح کا سبق دِیا ہے۔ غوث اُلاعظم حضرت شیخ عبداُلقادرجیلانی ؒ فرماتے ہیں کہ … 
گرنبودے رُوئے تو می بود در کتم عدم!
ہم ولی و ہم نبی وہم سموٰات و سمک!
یعنی ( یا صاحب لو لاک ، یا صاحب جمال! اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کا حسین اور پُر نُور چہرہ ٔ مبارک نہ ہوتا تو کوئی ولی ؔاور کوئی نبی ؔاور سموٰات یا سمک پیدا ہی نہ ہوتے)۔ 
تا ملک بشنودہ است صلوٰۃ تو از امُت! 
عُذر خواہی از گُناہ امُتّے شد برملک!
یعنی ( جب ملائکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کی اُمت کا درود و صلوٰۃ سُنتے ہیں توآپ ؐ کی اُمت کے گناہوں کی معافی کی سفارش کرتے ہیں )۔ 
خواجہ غریب نواز نائب رسولؐ فی الہند حضرت معین اُلدّین چشتی ؒ فرماتے ہیں کہ …
امروز خُون عاشق در عشق اگر ہدرشد!
فردا ز دوست خواہم تاوانِ ما محمدؐ!
یعنی’’ آج اگر عشق کی سرشاری میں عاشق نے ( اپنا ) خُون بہا دِیا ہے تو کل کو یوں ہوگا کہ ہمارے نبی اکرم ؐ ہمیں اپنے ربّ سے اُس کا معاوضہ دِلوا دیں گے! ‘‘۔
از امُتّانِ دیگر ما آمدیم برسَر!
وآں را کہ نِیست با در بُرہانِ ما محمدؐ !
یعنی ’’ جتنی اُمتیں بھی آئی ہیں، ہمیں اُن سب پر امتیاز حاصل ہے کہ اُنکے مقابلے میں ہمارے نبی ؐ کامل و اکمل ہیں جن کی گواہی اللہ تعالیٰ بھی دیتے ہیں! ‘‘۔ 
شیخ سعدی شیرازی ؒ نے اپنے انداز میں فرمایا تھا کہ 
بَلَغَ الْعُلیٰ بِکَمالِہٖ 
کَشَفَ الدُّ جیٰ بِجَمَالِہٖ 
حَسُنَتْ جَمِیْعُ خِصَالِہٖ 
’’صَلوُّ عَلَیْہِ وَ آ لِہٖ‘‘
ترجمہ:۔’ ’(آپؐ)اپنے کمال کی وجہ سے بلندی پر پہنچے!’’(آپؐ نے )اپنے جمال سے تاریکیوں کو روشن کِیا! ’’(آپؐ کی ) سب ہی عادتیں بھلی ہیں !’’(آپؐ پر) اور آپؐ کی اولاد پر درود پڑھو‘‘
’’حضور رسالت مآب ؐمیں !‘‘
معزز قارئین ! علاّمہ اقبالؒ نے ’’ حضور رسالت مآبؐ میں ‘‘ کے عنوان سے اپنی عظیم اُلشان نعت میں کیا خوب کہا ہے ۔ مَیں اُس کا صرف ایک بند پیش کر رہا ہُوں ۔ ملاحظہ فرمائیں …
’’حضورؐ! دہر میں آسْودگی نہیں مِلتی!
تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں مِلتی!
ہزاروں لالہ و گْل ہیں ریاضِ ہستی میں!
وفا کی جس میں ہو بْو، وہ کلی نہیں مِلتی!
مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں!
جو چیز اس میں ہے، جنّت میں بھی نہیں ملتی!
جھلکتی ہے تری اْمّت کی آبرو اس میں!
طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہْو اس میں!‘‘
معزز قارئین ! عرصہ ہُوا مَیں نے حضور پُر نُور، رحمتہ للعالمین کی شان میں اپنی نعت کے صرف چھ شعر پیش کئے ہیں یہ میری عزّت افزائی کے لئے بہت زیادہ ہیں ملاحظہ فرمائیں …
اے اِمام اُلْانْبیا ، محبوبِ ربّ اُلْعَالَمِیں!
آج تک چشم فلک نے ، آپؐ سا دیکھا نہیں!
رَحْمَتُہ لِلْعَالَمِیں 
آپؐ کے قدموں کو ، سینے پر لِیا ، خندہ جبیں!
کِس قدر خُوش بخت ہے ، مکّہ ، مدینہ کی زمیں!
 رَحْمَتُہ لِلْعَالَمِیں

بارگاہِ حقّ میں لے کر ، جب گئے ، رُوح اَُلْامَیں!
آپؐ کی خاطر بنا ، عرشِ بریں ، فرشِ زَمیں!
 رَحْمَتُہ لِلْعَالَمِیں
آپؐ کے خُدّام ہیں ، سارے جہانوں کے مکِیں!
فخرِ مَوجُودات ہو ، فخرِ الہٰ، و العَالَمِیں!
 رَحْمَتُہ لِلْعَالَمِیں
آپؐ کے صدقے بنائی، حقّ نے ، دُنیائے حسِیں!
آپؐ کے قبضۂ قُدرت میں ہے ، فِردوس بَریں!
 رَحْمَتُہ لِلْعَالَمِیں
اپنے قدموں میں بٹھا لیں ، کاش خَتم اُلمُرسَلیں!
پوری ہوگی ، اے اثرؔ، تیری تمنّا بالیقِیں!
رَحْمَتُہ لِلْعَالَمِیں
’’علامہ اقبال ؒ اور بابائے قوم !‘‘
علاّمہ اقبالؒ جب وکالت کرتے تھے تو آپ اپنی اور اپنے اہل خانہ کی ضرورت کیمطابق مقدمات اپنے پاس رکھ لیتے تھے اور فاضل مقدمات اپنے وکیل دوستوں اور شاگردوںمیں تقسیم کردیتے تھے ۔ قیام پاکستان کے بعد ’’ بابائے قوم‘‘ قائداعظم نے جب، گورنر جنرل آف پاکستان کا منصب سنبھالا تو اپنی ساری جائیداد کا ایک ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام وقف کردِیا تھا۔ 
’’’ شاعر !‘‘   معزز قارئین ! علاّمہ اقبالؒ کی مختصر نظم ’’ شاعر ‘‘ میں کیا خوب کہا گیا ہے کہ … 
قوم گویا جسم ہے، افراد ہیں اعضائے قوم!
منزلِ صنعت کے رہ پیما ہیں دست و پائے قوم!
محفلِ نظمِ حکومت، چہرۂ زیبائے قوم!
شاعر رنگیں نوا ہے دیدۂ بینائے قوم!
مبتلائے درد کوئی عْضو ہو روتی ہے آنکھ!
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ!
معزز قارئین!۔ مجھے یقین ہے کہ ’’حکومت ِ پاکستان اور مختلف صوبوں کے وزرائے اعلیٰ ، علمائے کرامؒ اور ہر مسلک کے اکابرین اپنے اپنے انداز میں آج کا دِن عزت و احترام سے منائیں گے اور 12 ربیع الاوّل بھی بہت ہی عزت و احترام سے منایا جائیگا !‘‘۔ 

ای پیپر دی نیشن