سرگوشیاں کرتی قدیم تہذیبیں

پچھلے برس جولائی میں گندھارا تہذیب کی بازگشت تھی۔انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز کے زیر ِ اہتمام گندھارا تہذیب پر ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں میں بدھ مت کے اہم پیشواوئوں کے علاوہ بڑی تعداد میں گندھا را تہذیب میں دلچسپی رکھنے والے دانشور ، طالب علم اور سول سوسائٹی کے ارکان شریک ہوئے۔ کانفرنس کے دوران معلوم ہوا کہ کتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے کانفرنس میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا۔ کانفرنس کے اختتام پر شرکاء کو تخت بھائی اور پشاور کا دورہ بھی کروایا گیا۔ کانفرنس کے دوران ہمیں محسوس ہوا کہ تین دِن ہم نے گندھارا کی صدیوں پرانی تہذیب کے سنگ گذارے۔ گندھارا تہذیب کے متعلق ہم نے بدھ مت کے پیشواوئوں سے پوچھا۔ گندھارا کے صدیوں پرانے رہن سہن کے بارے میں ہم نے بدھ مت کے پیروکاروں سے دریافت کیا۔ گندھارا تہذیب کے ورثے کے متعلق ہم نے اہل تحقیق سے پوچھا۔ گندھارا تہذیب کی علمی اور ثقافتی پہلو کے بارے میں کہانیاں اور واقعات ایسے انداز میں سنے کہ یوں لگتا تھا کہ جیسے ہم بھی گندھارا کے ہزاروں سال پرانیوقت میں رہ رہے ہیں۔ایک جملہ تھا جو بارہا سننے کو ملا اور کانوں کو بہت بھلا لگا۔ وہ جملہ تھا کہ گندھارا وہ سرزمین ہے جہاں کا ہر پتھر کہانی سناتا ہے۔ کیونکہ گندھارا کے ہر پتھر کی ایک کہا نی ہے۔ کسی بھی پاکستانی کے لئے اِس سے زیادہ فخر کیا ہوسکتا ہے کہ گندھارا تہذیب جس خطے میں پروان چڑھی وہ آج کا پاکستان ہے۔ قدیم تجارتی راستوں کے سنگم پر واقع گندھارا متنوع ثقافتوں اور تہذیبوں کا گہوارہ ہے۔ گندھارا تہذیب کے سب سے نمایاں پہلوئوں میں سے ایک اِ سکے باسیوں کی تخلیقی صلاحیتیں تھیں جو آج بھی اْن کی فن کے ساتھ اْن وابستگی کی گواہی دیتی ہیں۔ گندھارا تہذیب کے دریافت ہونے والے شہروں میں پینٹنگز، مجسمہ سازی، سکے، مٹی کے برتن اور بدھ مت کے ساتھ اْن کے تعلق اور اْس وقت کی زندگی کی خوبصورت تصویر کشی کا ثبوت ملتا ہے۔ گندھارا کے مقدس مقامات، مجسمے اور نوادرات صرف ماضی کے آثار ہی نہیں ہیں بلکہ وہ دْنیا کے مختلف ممالک سے آنے والے پیروکاروں اور سیاحوں کے لیے بھی گہر ی عقیدت اور دلچسپی کا باعث بھی ہیں اور پاکستان کے لئے بدھ مت یا دیگر مذاہب کے ورثے کا ہماری سرزمین میں موجود ہونا نہ صرف ہمارے لئے تہذیب کے تناظر میں اہم ہے بلکہ اِس سے مقدس مقامات کی سیاحت کا بھی ایک دروازہ کھلتا ہے جس کو ہم معیشت کے فروغ کے لئے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
ہماری سرزمین سلطنتوں کے عروج و زوال اور صدیوں سے پروان چڑھتی ثقافتوں کی گواہ ہے۔ قدیم سلطنتیں اور تہذیبیں علم اور حکمت کا مرکز بنیں۔ شہری ترقی اور جدید فن تعمیر کے ایسے شاہکار بھی ملتیہیں کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔ اِن تہذیبوں نے اِنسانی بقائے باہمیاور رواداری کے خوبصورت اْصول وضع کئے اور ثقافت کے ایسے زاویے متعارف کروائے جو آج کی منقسم دْنیا کو جوڑنے میں بھی بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔جیسے کہ پہلے ذکر ہوا کہ پاکستان آثار قدیمہ اور تہذیبی ورثے کے اعتبا ر سے دْنیا کی چند انتہائی قابل قدر اور قدیمی تہذیبوں کے سنگم پر کھڑا ہے اور چند ایسی تہذیبوں کا مرکز اور گہوارہ ہے جو جو ہزاروں سال پرانی ہیں۔ گندھارا تہذیب کے روحانی اور ثقافتی مراکز کے علاوہ وادی سندھ کی تہذیب بھی نہایت اہم ہے اور موہنجو داڑو اور ہڑپہ میں اِس کے قابلِ ذکر مراکز ہیں۔ پاکستان کی سرزمین پرموجود قدیم تہذیبوں کے آثار بلا شبہ قدیم زندگیوں میں ایک منفرد دریچہ کھولتے ہیں۔یہ قدیمی آثار صرف تاریخییادگاریں ہی نہیں ہیں بلکہ کئی حوالوں سے ہمارے ملک کی شناخت ہیں اوریہ ثقافتی تنوع ہماریورثے کی زندہ علامت ہیں جو ہمیں دْنیا کے باقی ممالک میں ممتاز کرتی ہیں۔قدیمی ورثہ پر گفتگو اِن قدیم خزانوں کی عالمی اہمیت کو سمجھنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ ہمارے ثقافتی اثاثے علم و ہنر کے ذخیرے ہیں، جو ہماری قوم کی شناخت کو محفوظ رکھنے اور عالمی سطح پر ہمارے امیج کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہیں۔یہ بھی ضروری ہے کہ یہ تاریخی اور ثقافتی ورثہ اور اْس سے جڑی داستانوں کو نئی نسل تک منتقل کیا جائے۔ قدیم ثقافت پر گفتگو اِ س لئے اہم کہ ہم اِس بات کا جائزہ لے سکیں کہ کس طرح پاکستان کی قدیم تہذیبوں سے جڑی دانش آج کی دْنیا میں امن اور باہمی افہام و تفہیم کو فروغ دے سکتی ہے اور کیسے ہم اِن تہذیبوں کو ذریعہ بنا کر دْنیا میں باہمی روابط کو فروغ دے سکتے ہیں اور کیسے بین الثقافتی مکالمے، سماجی ہم آہنگی، اور امن کے لئے کام کر سکتے ہیں۔ یہ مکالمہ اِس لئے بھی ضروری ہے کہ ہم بحیثیت قوم اِس بیش قیمت ورثے کے تحفظ کے لئے کیا حکمت عملی اختیار کریں اور ہم اِن آثار قدیمہ کے خزانوں کے تحفظ کو یقینی بنانے میں درپیش مسائل پر بات کریں۔ یہ بھی ضرروی ہے کہ ہم اِس بات پر غور و فکر کریں کہ کیسے ثقافتی سیاحت مختلف معاشروں کے درمیان پل کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ کیسے پائیدار سیاحت کو فروغ دیا جاسکتا ہے جس کی بدولت مقامی معیشت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہم ثقافتی سیاحت کو فروغ دے کر دْنیا کو اِس شعبے میں سرمایہ کاری کے لئے راغب بھی کر سکتے ہیں۔
انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز میںا?ج بھی اِس سلسلے میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس میں ثقافتی ماہرین، پالیسی ساز، اور اسٹیک ہولڈر ز شرکت کریں گے اور مختلف موضوعات پر گفتگو کی جائے گی کہ ہم اپنے ثقافتی اثاثوں کی حفاظت کے لیے نہ صرف ایک قابلِ عمل حکمت عملی بنائیں بلکہ انہیں اقتصادی ترقی، ثقافتی سفارت کاری، اور پائیدار سیاحت کے لییاستعمال کریں۔ہمیںیہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے ورثے کا تحفظ محض مورخین اور آثار قدیمہ کے ماہرین کا کام نہیں ہے بلکہ یہ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی ثقافتی میراث کی حفاظت کریں اوردْنیا میں اِس کے فروغ کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔
پاکستان میں موجود تہذیبوں کے آثار صدیوں پرانے آرٹ کے نمونوں، مجسموں، عمارتوں ، عبادت گاہوں ، فن تعمیراور کھنڈرات کے ذریعے پیغام رسانی کرتے ہیں کہ صدیوں پہلے کبھی یہاں ایک ترقی یافتہ معاشرت کا وجود رہا ہے۔مورتیوں اور دیگر فنون کی صورت میں ہزاروں سال پہلے کی زندگی کانشان ملتا ہے۔ اِن تہذیبوں کی دِل موہ لینے والی باقیات گواہی دے رہی ہیں کہ یہاں ہر پتھرکی ایک خوبصورت کہانی ہے اور ہر کھنڈر ایک شاندارتہذیب کا عکاس ہے جو کبھی اپنے جاہ و جلال کے ساتھ مو جود رہی۔ آج بھی اگر آپ ٹیکسلا، تخت بھائی، منجوداڑو اور ہڑپہ کی سرسراتی خاموشی میںبیٹھ جائیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ آج بھی ہر پتھر کہانی سناتا ہے اور آج بھی تہذیبیں سرگوشیاں کرتی ہیں۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن