آج سے اٹھائیس برس قبل29 ستمبر1993کو وڈیروںکی منظم سازش کے نتیجے میں شہید ہونے والاعطیم لیڈر ناصرف پنجاب یا پاکستان بلکہ دنیاکے ان چند قابل ذکرو فخر عظیم لوگوں میں ایک تھا جن کی زندگی کا بغور جائزہ لینے کے بعد ہرذی شعور اور درد انسانیت سے آشنا انسان ایسی عظیم ہستی کو انسانیت کیلئے اﷲتعالیٰ کاخاص تحفہ اوراپنے لئے ہیرو تسلیم کرنے میں ایک لمحہ کی تاخیرنہیںکرتا۔ زیرنظر تحریر میں راقم فرشتہ صفت، درویش اور بے مثال و لازوال ہستی غلام حیدر وائیں شہیدکے ساتھ ساتھ انکی سیاسی جانشیں محترمہ مجیدہ وائیں کو خراج تحسین پیش کرنا اپنافرض اولین سمجھتا ہے۔ چوہدری غلام حیدروائیں شہید6جون1933 میںامرتسرانڈیاکے ایک شریف النفس دیندار اور صالح چوہدری غلام محمدوائیںکے گھر پیدا ہوئے۔کم سنی میں یتیمی کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ نویں جماعت کے طالب علم تھے جب تحریک پاکستان کے دوران اپنے گھر والوں اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ ہجرت کرکے امرتسر (والٹن) لاہور آگئے۔ چند یوم مہاجرکیمپ میںگزارنے کے بعد میوہ منڈی بالمقابل دفترتاج کمپنی لاہور اپنے خاندان کے ساتھ رہائش پذیر ہوگئے لاہور میں تعلیم اورروزگارکا سلسلہ جاری رکھنے کے بعد اپنے خاندان کے ایک خوشحال اور صاحب حیثیت بزرگ غلام محمد ڈار مجیٹھہ جو بھارت سے ہجرت کے بعد میانچنوں آکر آباد ہوئے تھے کے پاس آکرمقیم ہوگئے چوہدری غلام محمدڈارنے 13 اپریل 1953ء میں غلام حیدر وائیں کی شادی اپنی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی مجیدہ سحر (مجیدہ وائیں) سے کردی ۔
میاں چنوں میں اپنے سسرکی سرپرستی میںرفاعی کاموں میں اس قدر مگن ہوئے کہ خودکو غریب عوام کی فلاح بہبود اور خیرخواہی کے لئے وقف کردیا۔ پھر زمانے نے دیکھا کہ اپنی محنت، خلوص نیت، خدمت انسانیت اورحب الوطنی کی بدولت وائیں شہید نے بہت کم وقت میں عوام کے دل جیت لئے۔ آپ کو منافقت سے پاک سیاست کا علمبرداراور درویش لیڈرکہا جانے لگا غریب اور مستحق لوگوں میںعلم و فن کی دولت برابر پہنچانے کے لئے آپ کی سرپرستی میں 1953-54 میں مرکزی انجمن اسلامیہ کی بنیادرکھی گئی جس کے زیراہتمام تعلیمی، دینی اورفنی اداروںسے بلاتفریق ہرکوئی دولت علم سے مالامال ہونے لگا۔ آپ کی اسی علم دوستی کی وجہ سے آپ کو سرسید میانچنوںکا خطاب بھی دیا گیا۔
1960 کومیدان سیاست میں اترنے والا وائیں خالق کی عطا اور خلق خدا کی دعا سے 29 ستمبر1993 تک (یعنی تاحیات) ناقابل شکست رہا۔ پہلے الیکشن سے ٹاؤن کمیٹی میانچنوںکا وائس چئیرمین بننے والایہ عظیم لیڈر مسلم لیگ اور بالخصوص غریب نظریاتی لیگی ورکرزکا ہیروبن کر ابھرا بالخصوص جب 1977 میں مسلم لیگ ڈرائنگ روم تک محدود ہوچکی تھی تواس وقت یہ آپ کی ولولہ انگیز قیادت کا ہی اثر تھا کہ مسلم لیگ ایک بار پھر بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آنے لگی۔ یہ آپ ہی کی قیادت کا ثمرتھا کہ مسلم لیگ نے ونگز قائم کیے گئے (خواتین ونگ، وکلا ونگ، یوتھ ونگ) اس کے علاوہ بہت کم لوگ اس تاریخی حقیقت سے واقف ہیں کہ مسلم لیگ کے معروف مونو ’’مکا‘‘ بھی وائیں صاحب کی ایجاد ہے۔
وائیں شہید خدمت انسانیت اور منافقت سے پاک سیاست کے علمبردار ہونے کی وجہ سے ظالم جاگیرداروں اور وڈیروں کے لئے وبال جان بن گئے ذوالفقارعلی بھٹونے آپ کو باربار پابند سلاسل کیا۔ جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے لیکن یہ سبھی تکلیفیں اور آزمائشیں آپ کے پایہ استقلال میں لرزش نہ پیدا کر سکیں۔ 1982میں جنرل ضیاء الحق نے آپ کو مجلس شوریٰ کا رکن نامزد کیا۔ 1986ء میں ممبر صوبائی اسمبلی بن کر وزارت تعلیم، منصوبہ بندی اور معدنیات کا قلم سنبھالا۔ لیکن جب جنرل ضیاء الحق نے جونیجو صاحب (سابق وزیراعظم پاکستان) کی حکومت ختم کی تو شہید وائیں نے کابینہ میں بطور وزیر حلف اٹھانے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ جنرل ضیاء الحق نے جونیجو صاحب ہی نہیں بلکہ مسلم لیگ کی حکومت ختم کی ہے لہٰذا مجھے ان کے زیر سایہ کوئی حکومتی عہدہ قبول نہیں۔ یہ سب ان کی مسلم لیگ سے بے پناہ محبت کی روشن مثال ہے۔
1988میں ممبر قومی اسمبلی بن کر قائد حزب اختلاف بنے۔ 1990 میں نگران وزیراعلیٰ پنجاب بنایا گیا اور 1990 کے الیکشن میں ہی فتح حاصل کرنے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے۔ کمال قدرت دیکھئے کہ وزارت اعلیٰ کا منصب بھی ان کی سادگی اور درویشی پر اثرانداز نہ ہوسکا۔ آپ نے جذبہ حب الوطنی سے سرشار جذبات شکل دینے لئے عظیم قومی منصوبے نظریہ پاکستان ٹرسٹ، تحریک پاکستان ورکرٹرسٹ، ایوان کارکنان ٹرسٹ اور انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت تقسیم ہندکے وقت پاکستان آنے والے مہاجرین کے پڑاؤکی جگہ باب پاکستان کا سنگ بنیادرکھ کر ثابت کیا کہ غلام حیدروائیں شہید دھرتی ماںکا سچا اور عظیم سپاہی ہے۔ غریب عوام، نظریاتی لیگی کارکنوں اور نظریہ پاکستان سے سچی محبت میں غلام حیدر وائیں شہیدکو ایک عام سیاسی کارکن سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا دیا گیا۔ غلام حیدر وائیں شہیدکے قابل رشک رتبے اور مقام کو وڈیرے اور جاگیردار برداشت نہ کرسکے۔ بالآخر 1993 کی انتخابی مہم کے دوران 29 ستمبرکے دن وڈیروں نے کرائے کے قاتلوںکے ذریعے اس عظیم فرشتہ صفت درویش کو شہیدکروادیا جس نے وزیراعلیٰ بن کر بھی زندگی کرائے کے گھر میں بسرکردی اور اپنے لئے ایک گھربھی نہ بنایا۔ شایداس صاحب ایمان کو معلوم تھا کہ قدرت نے اسے ہمیشہ دلوںمیں زندہ رہنے کے لئے پیدا کیا ہے۔ کچھ شک نہیں وہ عظیم ہستی اپنے لازوال کردارکی وجہ سے خلق خداکے دلوں پر ہمیشہ راج کرے گی ۔
جی قارئین! اب کچھ باتیں ہمارے آج کے عنوان کی دوسری لائق صد تعظیم و احترام ہستی محترمہ مجیدہ وائیں صاحبہ کے بارے میں جس نے اپنا سہاگ غریبوں پر وار دینے کے بعد بھی ہمت نہیں ہاری1993 کوجب وائیں شہیدکی شہادت کے بعد میانچنوں سیاسی یتیمی کے زخم سے چور چور ہوکر آہ وبکا کررہا تھا تو یہی عظیم ہستی تھی جس نے اپنے فرشتہ صفت رفیق حیات کے مشن خدمت انسانیت کو مزید بڑھانے اور پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے خودکو وقف کردیا۔ آپ نے اپنے عظیم خاوندکے نقش قدم پر چلتے ہوئے غریب عوام کی سرپرستی اور خیرخواہی کوخود پر لازم کرلیا۔ صبرو استقامت اور ہمت وجرأت سے مالامال محترمہ مجیدہ وائیں نے حق جانشینی اداکر کے دکھا دیا۔ 1996-97 کے انتخابات میں بیس ہزار کی بھاری برتری حاصل کرکے ممبرقومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ اسکے بعد1998 کے بلدیاتی انتخابات میں وائیں شہیدگروپ نے مجیدہ وائیں صاحبہ کی مدبرانہ اور دانشمندانہ قیادت میں ضلع خانیوال کی چئیرمین بھی حاصل کی جوکہ عوامی حلقوں میں محترمہ مجیدہ وائیںکی مقبولیت اورعوام کے دلوں میں ان سے بے پناہ عقیدت کامنہ بولتاثبوت تھا۔ 2002ء میں جب آمرانہ دور شروع ہوا توبڑے بڑے سیاسی مورخوںکی سیاسی وفاداریاں اور ایمان بدل گئے آمریت کے آتے ہی جھوٹے دعویدار ان محبان نوازشریف اقتدارکی حوس میں اپنی پیشانیوں پہ محسن کشی کے ٹیکے سجاکر آمریت کی گود میں جابیٹھے تب یہ بیگم مجیدہ وائیں ہی تھی جنہوںنے بیگم کلثوم نواز کے قدم سے قدم ملاکر یہ ثابت کیا کہ وہ شہید وائیں کی زندہ تصویر ہے جنہیں نہ ہی کوئی توڑسکتاہے اورنہ ہی خرید سکتا ہے وائیں شہیدکی شہادت سے آج تک پچھلے پورے چھبیس برسوں میں بیگم مجیدہ وائیںنے اپنے شہید خاوندکے مشن کو جس دلیری اور ہمت سے جاری رکھا ہے وہ لائق تحسین ہے۔ آمریت کے دور میں شریف خاندان سے رشتہ نیازمندی اور مسلم لیگ سے محبت نبھا کر بیگم وائیں نے لیگی کارکنان اور قیادت کادل جیت لیا ہے۔ اپنے شہید خاوند کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انہوں نے میانچنوں میں عام انتخابات کے دوران پارٹی کے وسیع ترمفاد اور میاں برادران کی خواہش پر ٹکٹ کی قربانی دیتے ہوئے لیگی امیدواران کی کامیابی میں بنیادی کردارادا کیا۔ یعنی مسلم لیگ اور نوازشریف کے لئے وائیں شہیدکی قربانیوںکا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ یہاں یہ امربھی قابل ذکرہے کہ جب پاکستان مسلم لیگ ن نے بیگم مجیدہ وائیںکو مخصوص نشستوں پر ممبر قومی اسمبلی فائنل کیا تواس لمحے جہاں وائیں فیملی کے وہ بدخواہ تکلیف میں مبتل اتھے جن کی زندگیاں وائیں شہید کو جیتے جی شکست دینے کی خواہش سے خود شکست خوردہ ہیں۔ اور قدرت نے شہیدکے خون کاکیا خوب بدلا چکایا کہ وائیں شہید ناصرف تاحیات ناقابل شکست رہا بلکہ وہ بعداز شہادت بھی اپنے مخالفین پرسبقت لے گیا۔ کچھ شک نہیںکہ شہید وائیںکا خلا کبھی پر نہیں ہوسکے گا مگر وائیں شہیدکی شہادت کے بعد جس طرح بیگم مجیدہ وائیں صاحبہ اور وا ئیں شہید کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھنے والی خو ش نصیب ڈاکٹرغزالہ شاہین وائیں جنہوں نے شہید کی تر بیت کیمطا بق ناصرف اپنی زندگیاں مسلم لیگ ، فرو غ نظر یہ پاکستا ن اور لیگی ورکرز کے لیے و قف کر ر کھی ہیں بلکہ وقت ثابت کر چکا ہے کہ ڈا کٹر غزالہ شاہین وائیں ہی و ہ حقیقی لیگی اور عوامی قیادت ہے جو شہید غلام حید ر وا ئیں کے عظیم مشن کو پو را کر نے کی صلا حیت ر کھتی ہیں
غلام حیدر وائیں شہیداورانکے جانشین
Sep 30, 2024