مجھے حال ہی میںپاکستان کے آخری گورنر جنرل اور پہلے منتخب صدر جناب اسکندر مرزا کی سوانحعمری پڑھنے کا موقعہ ملا۔ اس میں کچھ ایسے واقعات بھی سامنے آئے جو اس سے پہلے میری نظر سے نہیں گزرے لہٰذا میں یہ اہم واقعات اپنے قارئین سے شئیر کرنا چاہتا ہوں ۔ یہ شخص ہماری تمام ابتدائی تاریخ کا نہ صرف گواہ تھا بلکہ اُس کا ایک کردار بھی تھا۔ اس کا تعلق تو میر جعفر فیملی سے تھا لیکن بقول اس کے وہ ایک سچا اور محب ِ وطن پاکستانی تھا لیکن حالات نے اُس کے ساتھ زیادتی کی اور اس نے اپنی آخری زندگی وطن سے دور تکلیف میں گزاری۔ اِسے اپنی پینشن سے بھی محروم کر دیا گیا اور پاکستان میں دفن ہونے کی بھی اجازت نہ ملی۔بعض اوقات تقدیر کے کھیل واقعی بڑے بے رحم ثابت ہوتے ہیں۔ مرزا صاحب کی والدہ ایک سمجھدار اور پڑھی لکھی خاتون تھیں جس نے قائد اعظم کیساتھ ملکر خواتین کی فلاح و بہبود کے لئے کافی کام کیا۔ اُ س نے مرزا کی خاندانی درباری سازشوں سے دور بمبئی میں رکھ کر تربیت کی اور اچھی تعلیم دلوائی۔
1918ء میں برٹش گورنمنٹ نے فیصلہ کیا کہ فوج کی کمانڈ میں ہندوستانیوں کو بھی شامل کیا جائے جبکہ اس سے پہلے ہندوستانی صرف صوبیدار میجر کے رینک تک جا سکتے تھے۔ اس فیصلے کے بعد 1918ء میں پانچ ہندوستانی نوجوان منتخب کر کے رائل ملٹری کالج (سینڈ ہرسٹ برطانیہ) میں تربیت کے لئے بھیجے گئے۔ ان میں اسکندر مرزا بھی شامل تھا۔ ان میں سے دو فوت ہوگئے اور دو ٹریننگ برداشت نہ کر سکے انہیں نکال دیا گیا۔ اسکندر مرزا پہلا بھارتی مسلمان تھا جسے 1920ء میں کمیشن ملا اور اُسے ’’پونا ہارس یونٹ‘‘ الاٹ کی گئی۔ اس دور میں انڈین پولیٹیکل سروس جسے آج کل ڈی ایم جی کہا جاتا ہے کے لئے زیادہ تر ممبران فوج سے لئے جاتے تھے۔مرزا نے 1926ء میں پولیٹیکل سروس کے لئے اپلائی کیا تو اُسے منتخب کر کے اُسوقت کے صوبہ سرحد کی تحصیل ٹانک میں اسسٹنٹ کمشنر لگا دیا گیا۔ اس نے خوب محنت کی اور نیک نامی کمائی ۔ اگلے کئی سال تک اِسے صوبہ سرحد ہی میں رکھا گیا اور تقریباً تقریباًہر ضلع میں سروس کا موقعہ ملا۔ وہاں اس نے اسسٹنٹ کمشنر ، پولیٹکل ایجنٹ اور بطور ڈپٹی کمشنر سروس کی۔ پشاور میں پانچ سال تک ڈپٹی کمشنر رہا۔ اُسی دور میں قائد اعظم نے مرزا کو بلا کر مسلم لیگ کی پاپولرٹی کے لئے صوبہ سرحد میں کام کرنے کے لئے کہا۔ قائد نے اُسے کہا کہ مسلم لیگ کی تشہیر کرے اور پٹھانوں کو پاکستان کے لئے تیار کرے جو بقول اس کے اُس نے کیا۔ یہ اس بات سے نالاں تھا کہ وہاں کے مسلم لیگی بہت حریص ، کرپٹ اور بے اصولے لوگ تھے۔
تقسیمِ ہند کے وقت یہ شخص انڈین وزارت دفاع میں جوائنٹ سیکرٹری تھا۔ قائد کے کہنے پر اس نے پاکستان کے لئے آپشن دی اور یہاں پاکستان میں یہ وزارتِ دفاع میں سیکرٹری مقرر ہوا۔ اس نے بہت کوشش کی کہ پاکستان کو اُس کے حصے کا سارا سازوسامان خصوصاً ٹینکس وغیرہ ملیںلیکن یہ پوری طرح کامیاب نہ ہوا۔اُس وقت اُسے دو بڑی شکایات تھیں۔ اوّل یہ کہ کانگریس بہت پرانی سیاسی جماعت تھی جس میں بڑے پُر خلوص اور ایماندار قسم کے تمام مذاہب سے لیڈر زشامل تھے حتیٰ کہ مولانا ابوالکلام جیسے مسلمان لیڈر بھی کانگریس کا حصہ تھے۔ مزید یہ کہ بہت سے مسلمان لیڈرز جیسا کہ خان عبدالغفار خان یا علامہ مشرقی وغیرہ پاکستان کے خلاف تھے لیکن مسلم لیگ میں قائد کے علاوہ کوئی پائے کا لیڈر نہ تھا۔ جو چھوٹے موٹے پارٹی ممبرز تھے ان میں زیادہ تر کرپٹ ، لالچی اور ذاتی مفاد پرست لوگ تھے(افسوس کہ یہ ماحول اب تک ایسے ہی چلا آرہا ہے)دوسری شکایت یہ تھی کہ جب ریڈ کلف برصغیر کی تقسیم کے لئے آیا اور یہاں کام شروع کیا تو نہرو اور کانگریس کے دیگر ممبرز سب نے ملکر ریڈ کلف کو ایسے گھیرا اور اپنی خواہش کے مطابق اُس سے سرحدی لکیر لگوائی جبکہ مسلم لیگ کی طرف سے کسی ممبر نے بھی ایسی کوشش نہ کی۔ کانگریس کے لیڈروں کے پریشر کی وجہ سے ریڈکلف نے نا جائز طور پر پاکستان کیساتھ زیادتی کی ۔گورداس پور اور فیروز پور مسلمان علاقے تھے جو جان بوجھ کر ’’انڈر پریشر ‘‘بھارت کو دے دیئے گئے۔
مسلم لیگ کی طرف سے کوئی ایسا لیڈر نہ تھا جو اس ناانصافی کو روک سکتا تو یوں پنجاب کا پورا نہری نظام بھارت کے پاس چلا گیا اور اپنی اس بیوقوفی کی سزا ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد ہر چھوٹا بڑا لیڈر اپنے آپ کو پاکستان کا مالک سمجھنے لگا۔ پاکستان کے مسائل کی طرف توجہ دینے کی بجائے سب جائیداد اور عہدوں کے حصول میں پڑگئے۔ اس وقت جو سب سے بڑا ظلم ہوا وہ کشمیر میں قبائلی لشکر داخل کرنا تھا۔ اُن کے پاس نہ کپڑے تھے نہ راشن نہ مکمل ہتھیار۔ یہ لشکر بغیر کسی منصوبہ بندی اور مناسب کمانڈ کے داخل کر دیا گیا۔انہیں یہ لالچ دیا گیا کہ تم راستے میں گاؤں لوٹ کر اپنی ضروریا ت پوری کر لینا۔یہ لوگ لڑنے کی بجائے زیادہ تر لوٹ مار میں مشغول ہو گئے۔ جب بھارت نے یہ حالات دیکھے تو ماؤنٹ بیٹن جو اُس وقت بھارت کا گورنر جنرل تھا نے فوری طور پر بذریعہ جہاز سکھ رجمنٹ سری نگر میں ڈراپ کر دی ۔جب قبائلیوں کا مقابلہ بھارتی فوج سے ہوا تو یہ جتنے تیزی سے آگے گئے تھے اُس سے دوگنی تیزی سے واپس بھاگے۔ ان میں سے بعض نے دی گئی اپنی سرکاری رائفلیں بیچ کر درہ کی بنی ہوئی رائفلیں خریدلیں جو تھوڑے فائر کے بعد ٹیڑھی ہو جاتی تھیں۔ ان کے کچھ لیڈروں نے پاکستان کو بلیک میل کرنے کی کوشش بھی کی اور پچاس لاکھ روپے خرچہ ڈیمانڈ کئے۔
…………………… (جاری)
بقول اسکندر مرزا کشمیر پر اگر مناسب منصوبہ بندی سے حملہ کیا جاتا تو یہ محض دو دنوں کا معرکہ تھا۔ صرف’’ منی ہل پاس‘‘پر ہم ایک بٹالین فوج یا چند سو مجاہدین بٹھا دیتے تو بھارت کے لئے کوئی راستہ بھی نہ تھا اور سری نگر ائیرپورٹ پر صرف ایک انفنٹری بٹالین ہی کافی تھی۔مگر لیڈر بننے کے جوش میں کشمیر ہمیشہ کے لئے کھو بیٹھے۔ ایسے نظر آتا ہے کہ ہم غلط کام کرنے کے ماہر ہیں۔یاد رہے کہ یہ لشکر قائد اور وزیراعظم کی اجازت کے بغیر بھیجا گیا تھا۔
جب قائد اعظم کو پتہ چلا تو انہوں نے فوج داخل کرنے کے لئے سوچا ۔ یہاں ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ قائد کا حکم اُس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل گریسی نے ماننے سے انکار کر دیا تھا بلکہ حقیقت یہ تھی کہ قائد اعظم فوج اور دفاع کہ متعلق کچھ زیادہ نہیں جانتے تھے۔ سب سے پہلے قائد نے فوج بھیجنے کے لئے اسکندر مرزا سے پوچھا کیونکہ وہ اُس وقت سیکرٹری دفاع تھا اور قانونی طور پر کمانڈر انچیف جنرل گریسی سیکرٹری کے ماتحت تھا۔ اسکندر مرزا نے قائد کو بتایا کہ موجودہ حالات میں فوج بھیجنی ممکن نہیں کیونکہ پاکستان فوج اُس وقت تک غیر منظم تھی ۔ کچھ یونٹیں جو دوردراز کے علاقوں میں تعینات تھیں تاحال سفر میں تھیں اور پاکستان نہیں پہنچی تھیں دوسرا ہمارے پاس بھاری ہتھیار بالکل نہ تھے ۔ ہمارے پاس صرف چھوٹے ہتھیار تھے اور محض ایک ہفتے کا اسلحہ ۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ تاحال پاکستان میں بھارت کی دو انفنٹری بٹالینز موجود تھیں۔ ان حالات میں فوج بھیجنا خود کشی کی مترادف ہوتا۔ یہی بات اسکندر مراز ، جنرل گریسی اور فیلڈ مارشل آکنلک نے قائد کو بتائی۔
اس عرصے میں نواب آف جونا گڑھ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا۔ وزیر اعظم نے اسکندر مرزا کو نواب صاحب کی مدد کیلئے فوج بھیجنے کا کہا لیکن یہ بھی ممکن نہ ہوسکاکیونکہ زمینی راستہ بھارت سے گزر کر جاتا تھا لہٰذا اس راستے سے فوج بھیجناممکن تھا۔واحد راستہ بذریعہ سمندر تھا لیکن ہمارے پاس اُس وقت تک کوئی سمندری جہاز بھی نہ تھا۔ اسی دوران سردار پٹیل کی جانب سے ایک خصوصی میسنجر ایک خط لیکر آیا کہ اگر پاکستان حیدر آباد سے ہاتھ اُٹھا لے تو بھارت کشمیر دینے کے لئے تیار ہے۔ یہ معاملہ حکومت کے سامنے رکھا گیا لیکن بد قسمتی سے حکومت کوئی فیصلہ ہی نہ کر سکی۔ اُس وقت کراچی بندرگاہ پر بھارت کے دو نئے ٹیمپسٹ(Tempest)جہاز جو تاحال کریٹوں میں بند تھے موجود تھے۔ ہماری وزارتِ دفاع نے ان پر قبضہ کر لیا لیکن جناب وزیراعظم صاحب نے یہ کہہ کر جہاز بھارت کو بھجوا دیئے کہ ’’ میں نے جہاز بھیجنے کا سردار پٹیل کو وعدہ دیاتھا۔‘‘
جب پاکستان فوج کچھ منظم ہوئی تو جنرل گریسی نے کشمیر پر بذریعہ فوج قبضے کا منصوبہ بنایا۔ اس وقت بھارت کی پانچ ڈویژن فوج پونچھ میں موجود تھی جس کی سپلائی لائن صرف براستہ اکھنور تھی۔ اتنی بڑی فوج کے لئے بذریعہ ہوائی جہا ز سپلائی ممکن نہ تھی۔ جنرل گریسی نے دو ڈویژن فوج اکھنور بھیجنے کا منصوبہ بنایا ۔ اس سے بھارتی فوج کی سپلائی لائن کٹ جاتی اور بھارت قدموں میں گرنے کے لئے مجبور ہو جاتا۔ جنرل گریسی یہ منصوبہ لیکر اسکندر مرزا کے پاس پہنچا۔ اسکندر مرزا نے یہ منصوبہ حکومت کو پیش کیا لیکن پھر مسئلہ وہی آیا کہ حکومت کئی دنوں کی بحث کے باوجود کوئی فیصلہ بھی نہ کر سکی۔جنرل گریسی نے مایوس ہو کر بعد میں استعفیٰ دے دیا۔اس عرصے میں اسکندر مرزا پاکستان کا صدر منتخب ہوا لیکن کرپٹ سیاستدانوں نے ملک کا بیڑا ہی غرق کر دیا۔ تنگ آکر مرزا نے ایک ماہ کے لئے مارشل لاء لگایا تو فوج نے مرزا کو اقتدار سے محروم کر کے لندن بھیج دیا جہاں اس نے باقی زندگی کسم پُرسی کی حالت میں گزاری۔