میرے گذشتہ کالم ’’میرا دین رانجھا، میراایمان رانجھا‘‘کا لب لباب اور خلاصہ کچھ یوں تھاکہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کا قطعاً کوئی وجود نہیں۔ ایک سیاسی جماعت ایک ریاست کے اندر ایک سیاسی گروہ بندی کا نام ہے جو عوام کی اجتماعی بھلائی اور فلاح و بہبود کیلئے مل جل کر حکومت کے حصول کیلئے کوشش کرتے ہیں۔ ان کا ایک منتخب تنظیمی ڈھانچہ ہوتا ہے۔ یہ اپنے منشور کا باقاعدہ اعلان کرتے ہیں جو ریاست کے کے مفاد سے ٹکراتا نہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں ایک سیاسی جماعت ایک لیڈر سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہو جاتی ہے۔ ’’ہم نواز شریف لورز اور عمران خان لورز‘‘کے نام پر اقتدار کے متلاشی جتھوں کو ہی ایک سیاسی جماعت سمجھے بیٹھے ہیں۔ ان جتھوں میں اپنے قائد کیلئے وفاداری بشرط استواری کو ہی اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ انہیں عوام کے حالات کی بجائے صرف اپنے انفرادی اور خاندانی حالات میں بہتری مقصود ہوتی ہے۔ ذاتی یا خاندانی مفاد کیلئے انہیں پارٹی چھوڑنے یا بدلنے میں کوئی عار نہیں ہوتا۔ ان میں تمام جماعتی عہدے انتخاب کی بجائے نامزدگی سے پْر کئے جاتے ہیں۔ جماعتی قائد کو پرسش کے کٹہرے میں لانے کی بجائے پرستش کے سنگھاسن پر لا بٹھایا جاتا ہے۔ پھر ان دیوتاؤں سے اصولی اختلاف کرنے والے بھی مارے جاتے ہیں۔ بے گناہ مارے جانے والوں میں بہادر جاوید ہاشمی کا نام ذہن میں آرہا ہے۔ آپ انہیں پاکستان میں با اصول سیاست کا شہید بھی کہہ سکتے ہیں۔ کیا یہ خبر نہیں کہ آج ہمیں جاوید ہاشمی کی کوئی خبر نہیں۔ اس نے اپنے ذاتی اور جماعتی مفاد پر قومی مفاد کو ترجیح دی تھی۔ سول بالا دستی پر ایمان رکھنے والے اس سیاستدان کا آغاز طلباء سیاست سے ہوتے ہوئے جنرل ضیاء الحق کی کابینہ کے رکن کے طور پر ہی ہوا تھا۔ لیکن جب بھی پاکستان میں سول بالا دستی کی تاریخ لکھی جائیگی ان کا نام نظر انداز نہیں ہوگا۔
رؤف مغل گوجرانوالہ کے شرفاء میں ایک اہم نام ہے۔ یہ بڑے صنعتکار ہیں۔ پڑھنے سے شغف رکھتے ہیں۔ کئی بار ممبر اسمبلی رہے ہیں۔ ان کا فون تھا کہ میں نے آپ کا’’نواز شریف اور عمران خان لورز‘‘والا کالم دیکھا ہے۔ اب اللہ جانے انہیں میرے موقف سے اختلاف ہے یا اتفاق۔ کال درمیان میں ہی منقطع ہو گئی۔ کسی روز ان سے لمبی گپ شپ ہوگی۔ مفاد پرست عناصر کے ان جتھوں جو اپنے تئیں سیاسی کارکن کہلوانے پر بضد ہیں کے ذکر سے ایک واقعہ یاد آگیا۔ اس واقعہ سے آپ کو ان ’’سیاسی جماعتوں‘‘ اندرونی ماحول کو دیکھنے اور سمجھنے میں بڑی مدد ملے گی۔ یہ واقعہ معروف خاتون سیاستدان محترمہ عابدہ حسین نے اپنی آٹو بائیو گرافی میں لکھا ہے۔ ’’ہمیں کراچی میونسپل کارپوریشن کے پرانے دفاتر سے باہر ایک باغیچے میں ایک شامیانے تلے لنچ کیلئے لیجایا گیا۔ لکھنؤکا بہترین مصالحے دار کھانا بھاری مقدار میں کھانے کے بعد یخ بستہ ٹھنڈی سیون اپ نوش کی۔ اب میں واش روم کی تلاش میں اِدھر اْدھرگر دیکھنے لگی۔ میں نے عظیم طارق سے اس کا ذکر کیا لیکن وہ کہنے لگا۔ سب نے کھانا ختم کر لیا ہے۔ اب ہم الطاف حسین کے پاس جائیں گے۔ وہ عمارت کے اندر ہمارے منتظر تھے۔ ہم میاں نواز شریف اور غلام مصطفی جتوئی کی سرکردگی میں میونسپل کارپوریشن کے تاریک لاؤنج میں داخل ہو گئے۔ سبھی نے میرے اکیلے اندر جانے کا انتظار کیا۔ کیونکہ پورے گروپ میں، میں ہی واحد خاتون تھی۔کمرہ اس قدر تاریک تھا کہ میں الطاف حسین سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔ قدم پیچھے ہٹاتے ہوئے میں نے پوچھا۔میں واش روم جا سکتی ہوں؟ انہوں نے چٹکی بجا کر اشارہ کیا اور میں ایک طرف ہٹ کر برآمدے میں چلتی ہوئی ایک دروازے میں داخل ہوئی۔ اس پر ٹائلٹ لکھا ہوا تھا۔ فرش پوری طرح گیلا اور گندا تھا۔ میں واپس لاؤنج میں آئی اور خاموشی سے پروفیسر غفور احمد کے ساتھ پڑی خالی کرسی پر بیٹھ گئی۔
یہ وہ دور تھا جب جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم مہذب انداز میں چل رہی تھیں۔ الطاف حسین نے ایک چپڑاسی بھیج کر پوچھا۔ کیا مجھے ٹائلٹ مل گیا ہے؟ مجھے ان کے چٹکی بجانے اور لوگوں کو مختلف احکامات دینے کی استعداد پر حیرت ہو رہی تھی۔ میں ایک بڑی زمیندار ہوں۔ لیکن میں اپنے گاؤں شاہ جیونہ میں بھی اس طریقے سے کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ میں نے چپڑاسی کو بتایا کہ ٹائلٹ گندا اور ناقابل استعمال تھا۔ اس نے الطاف حسین کو یہ اطلاع دی تو میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ انہوں نے اونچی آواز میں عمران فاروق (قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے سربراہ) اور عظیم طارق کو حکم دیا کہ وہ اور عظیم طارق جا کر ٹائلٹ کو ٹھیک طریقے سے صاف کریں تاکہ ’’بہن‘‘اسے استعمال کر سکے۔ کوئی دس منٹ سے ہی کم وقت میں عظیم طارق ادب کے ساتھ مجھے کمرے سے باہر اسی ٹائلٹ کی طرف لے گئے جو اب بے داغ فرش اور کسی بدبو کے بغیر خشک تھا۔ میں نہایت ہلکی پھلکی ہو کر اپنے ساتھیوں کے پاس آگئی۔ جب عظیم طارق اور عمران فاروق قتل ہوئے تو مجھے اس حیرت انگیز دوپہر کی بہت یاد آئی‘‘۔
کالم نگار کی رائے میں یہ فعل مغل دربار میں کئے جانے والے سجدہ تعظیمی کی انتہائی شکل تھی۔ آپ اسے ایک نام نہاد جمہوری معاشرے میں جماعتی کی بجائے شخصی وفاداری کی ایک بھونڈی مثال بھی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن کیا کیا جائے۔ عام طورپر ان سیاسی خداؤں کی نافرمانی کا نتیجہ انتخابی ٹکٹ سے محرومی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ سندھ سے جسٹس غوث علی شاہ نواز شریف کے پیارے تھے۔ سندھ مسلم لیگ کی صدارت، گورنری اور پنجاب سے قومی اسمبلی کی ممبری، انہیں یہ سب کچھ ملا۔ لیکن نازک مزاج شاہاں تابع سخن ندارد۔ جب یہ معتوب ہوئے تو ملاقات کاوقت بھی نہ مل سکا۔ ان کا قصور بادشاہوں کے حضور غیر محتاط اور بے تکلفانہ گفتگو تھا۔ جب ’’بادشاہ سلامت‘‘کی جدہ محل سے واپسی ہوئی تو جسٹس غوث علی شاہ انہیں ہنستے ہوئے کہنے لگے۔ ہمیں بھی ساتھ لئے جاتے۔ اگر جہاز میں کوئی سیٹ خالی نہ تھی تو ہمارا کیا ہے، ہم نے جہاز کے فرش پر بیٹھ جانا تھا۔ ’’بادشاہ سلامت‘‘کو یہ طرز کلام پسند نہ آیا۔ اس کے بعد یہ مردود ٹھہرائے گئے۔
زمانہ معلوم سے خان غلام دستگیر خان گوجرانوالہ حکومتی سیاست کے میر کارواں رہے ہیں۔ اتنی لمبی اننگ حکمرانوں کی مزاج شناسی کے بغیر ممکن نہیں۔ وزیر آباد کارڈیالوجی انسٹیٹیوٹ 2011ء میں مکمل ہو چکا تھا۔ جدید ترین مشینری 7/8برس ڈبہ بند بیکار پڑی رہی کہ میاں نواز شریف فیملی کو ہسپتال کا نام پرویز الٰہی انسٹیٹیوٹ برداشت نہ تھا۔ جہلم، منڈی بہاؤ الدین تک سے دل کے مریض اس ہسپتال کی عمارت کے پاس سے تڑپتے، پھڑکتے، مرتے گزرتے رہے۔ میاں نواز شریف فیملی سے بزرگانہ تعلقات کے باوجود خان غلام دستگیر خان نے اس ہسپتال کے کھولے جانے کا کبھی مطالبہ نہ کیا۔حکمرانوں کے مزاج شناس خاں صاحب سے بہتر کون جانتا ہے کہ حکمرانوں کے حضور کیا کہنا ہے اور کیا نہیں کہنا۔2018ء میں عبوری وزیر اعلیٰ پنجاب سید حسن عسکری کے ہاتھوں اس خطہ کے دل کے مریضوں کی قسمت کھلی اور ہسپتال کھل گیا۔ کالم تمام ہوا۔ درویش علامہ اقبال کے اس شعرپر لمباغور کریں:۔
کسے نہیں ہے تمنائے سروری لیکن
خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے
حکمرانوں کے ہاں انداز حکمرانی
Sep 30, 2024