پیر‘25 ربیع الاول 1446ھ ‘ 30 ستمبر 2024ء

مشرقِ وسطیٰ میں تباہی آئی تو اسرائیل بھی نہیں بچے گا
کہتے ہیں کتا جب پاگل ہو جائے تو اسے اس کے رحم دل مالک گولی مار کر انجام سے ہمکنار کرتے ہیں یعنی ترس نہیں کھاتے بلکہ موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ اس وقت اسرائیل بھی ایک ایسا ہی پاگل جانور بن چکا ہے جو ادھر ادھر سب کودانت دکھاتا اور کاٹتا پھر رہا ہے۔ اب بجائے اس سے جان چھڑائی جائے، سب اس کی طرف سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ سب دور دور سے ہش ہش کرکے اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔ اس ملک کی وجہ سے مشرق وسطیٰ جہنم کدہ بن چکا ہے۔ فلسطین اور لبنان پر اسرائیل آگ برسا رہا ہے، مصر اور شام کے فوجیوں کو بھی کاٹ رہا ہے۔ اب تو اس کا حوصلہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ اس نے براہ راست ایران کے تمام مقررہ اہداف کو نشانہ بنانے کی دھمکی بھی دیدی ہے۔ یہ کوئی عام بڑھک نہیں، حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کو وہ تہران میں دھماکے سے شہید کرکے ثابت کر چکا ہے کہ وہ ایسا کر سکتا ہے۔ اب بیروت میں حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد ضروری ہو گیا ہے کہ عالمی برادری اس پاگل جانور کا علاج کرے اور اس کے ناپاک وجود سے دنیا کو پاک کرے ورنہ ایران سے لے کر شام تک کا وسیع علاقہ خوفناک تباہی کی لپیٹ میں آیا تو خود اسرائیل بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ اب تو ایران کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو چکا ہے۔ نجانے کس طرح وہ برداشت کر رہا ہے اور جوابی کارروائی سے رکا ہوا ہے۔ دوسری طرف امریکا اور اس کے اتحادی بے شرمی کی حد تک ڈھیٹ بن کر اسرائیل کی حمایت اور سرپرستی سے باز نہیں آرہے۔ اسے حق بجانب کہہ رہے ہیں۔
٭…٭…٭
علی امین گنڈاپور کی گاڑی برہان انٹر چینج سے واپس  باہر نہ نکلنے پر کارکنوں نے گھیراؤ کرلیا
یہ انوکھا منظر گزشتہ شب راولپنڈی میں دیکھنے کو ملا جب کارکنوں نے اپنے وزیراعلیٰ کے خلاف نعرے لگائے اور انھیں آگے بڑھ کر مظاہرے کی قیادت کرنے کا کہا مگر وہ آگے کیا آتے، اپنی گاڑی سے ہی باہر نہ نکلے اور کارکنوں کو آگے بڑھنے کا کہتے رہے جبکہ کارکنوں کا کہنا تھا کہ پولیس کی شیلنگ کی وجہ سے وہ بے ہوش ہو رے ہیں۔ گنڈاپور بھی باہر آئیں ہمارے ساتھ آگے بڑھیں مگر وہ باہر نہ نکلے۔ اس پر کارکن مشتعل ہو گئے۔ یوں اپنی ہی قیادت کے خلاف شور مچانے لگے۔ گزشتہ روز احتجاج کی کال پر پشاور سے پی ٹی آئی کے کارکنوں کی بڑی تعداد وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے ہمراہ راولپنڈی کی طرف روانہ ہوئی ا ن کے ساتھ رکاوٹیں ہٹانے والے بھاری آلات بلڈوزر اور کرینیں بھی تھیں، انھوں نے بہرحال اس طرح پنجاب حکومت کے اٹک پار کرنے کا چیلنج پورا کر دکھایا۔ راولپنڈی کے قریب پولیس کے ساتھ کارکنوں کا تصادم بھی ہوا۔ یوں پتھراؤ اور آنسو گیس کا روایتی مقابلہ ایک بار پھر لوگوں کو دیکھنے کو ملا۔ پھر اچانک رات کو چیئرمین گوہر نے گنڈاپور کو واپسی کا پیغام دیا تو کارکن بپھر گئے اور انھوں نے برہان انٹرچینج پر وزیراعلیٰ کی گاڑی گھیر لی اور کئی گھنٹے وہ محبوس رہے اور غصے میں کارکنوں کوبرا بھلا کہتے رہے۔ کارکنوں کا عزم تھا کہ بحکم بانی یہاں ہی دھرنا ہوگا۔ اس پر کئی وزراء اور ارکان اسمبلی کارکنوں کو منانے کے لیے آگئے تاکہ وزیراعلیٰ کو بحفاظت نکالا جا سکے۔ یہ عجیب صورتحال تھی جس میں پرجوش کارکن تو 
ہر زخم پر اک اور زخم کی ہے طلب
عجب نشہ ہے قربانیوں کے موسم کا 
مگر پارٹی لیڈر مصلحت کیشی کا درس دے رہے ہیں اور بانی کے حکم پر پشاور واپسی کو فتح قرار دے رہے ہیں۔
٭…٭…٭
امیت شاہ نے عمر عبداللہ کو اس کی اوقات یاد دلا دی
مقبوضہ کشمیر کی نام نہاد اسمبلی کے ڈھونگ الیکشن کا دوسرا مرحلہ بھی ہو گیا۔ من پسند غیرملکی چند سفیروں نے سرینگر کا دورہ بھی کیا۔ اس موقع پر کٹھ پتلی سابق وزیراعلیٰ غدار ابن غدار ابن غدارعمر عبداللہ نے اپنی جماعت کی متوقع شکست کو دیکھتے ہوئے حریف پارٹی کے انجینئر رشید کو بری طرح لتاڑا جو ابھی تہاڑ جیل سے رہا ہو کر آئے اور کشمیر کے روایتی سیاست دانوں کو پچھاڑ دیا۔ ان کے اس بیان کہ وہ حریت تحریک کو قربانیوں کو سلام کرتے ہیں اور یٰسین ملک سمیت تمام رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس پر عمر عبداللہ کی خوے غلامی پھڑک اٹھی اور کہا کہ انجینئر رشید کی قلعی کھل گئی ہے۔ وہ بھارت مخالف عناصر کا حمایتی ہے، ملک دشمن ہے جبکہ موصوف نے اپنے دادا اور والد کا تذکرہ نہیں کیا جو کشمیر کے غدار ہیں اور ہزاروں کشمیریوں کے قاتل ہیں۔ اب بھی بھارت سرکار کو خوش کرنے کے لیے دوسروں پر الزام لگا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کشمیری ووٹروں کو بے وقوف بنانے کے لیے کہتے ہیں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت بحال کرائیں گے۔ اس کے جواب میں بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایک جلسے میں شیخ خاندان کی خوب کلاس لی اور کہا کہ عمر فاروق کی تین نسلیں اور بھی گزر جائیں گی مگر کشمیر کو اب دوبارہ علیحدہ حیثیت ملے گی۔ حیرت ہے کانگریس، پی ڈی پی اور دوسری کشمیری پارٹیاں کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے پاکستان سے مذاکرات پر زور دیتی ہیں مگر نیشنل کانفرنس گول مول انداز میں بھارتی حکمرانوں کو پرانی تنخواہ پر کام کرنے کی یقین دہانی کران میں لگے ہوئے ہیں۔ انھیں بس کشمیر کی حکمرانی سے مطلب ہے اور وہ اس کام کے لیے مودی سرکار کی غلامی کو بھی تیار ہیں مگر لگتا ہے بی جے پی گھاس ڈالنے کو تیار نہیں۔ وہ خود مقبوضہ کشمیر میں اپنے پنجے جمانے کی کوشش کر رہی ہے اور جموں و ہندو اکثریتی علاقوں سے ووٹ حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے جہاں غیرکشمیری ہندوؤں کی بڑی تعداد میں بسایا گیا ہے۔ 
٭…٭…٭
پاکستانی میڈیا کے مادر پدر آزاد ڈرامے ، سماج کی تباہی کے ذمہ دار
اس وقت پاکستانی تفریحی ٹی وی چینلز پر ڈراموں کے نام پر جو کچھ چل رہا ہے اسے صرف بیہودہ  یا لچر کہنا، دراصل کورچشمی ہے۔ نجانے نجی چینلز پر نشر ہونے والے پروگراموں اور ڈراموں پر کوئی چیک اینڈ بیلنس ہے یا نہیں۔ کوئی ایک ڈرامہ یا چینلز ہو تو اس کا ذکر کیا جائے، ہر چینل ایک دوسرے سے بڑھ کر معاشرے میں غلط تصورات کو اجاگر کرنے اور مرد و خواتین کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے، جس سے معاشرہ انارکی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ نہ رشتوں کا تقدس باقی رہا اور نہ بڑے چھوٹے کی تمیز۔ کم عمر لڑکی کو اپنے والد کے عمر کے برابر شخص یا کسی مالدار سے ، اپنے بہنوئی یادیور سے یا کسی اور سے عشق کرتے دکھایا جاتا ہے یا ایسے ہے مرد کسی عورت سے محبت کی پینگیں بڑھاتا نظر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی جادو ٹونے کا درس بھی دیا جانے لگا ہے۔ رشتوں کی اس بے حرمتی کا ہمارے گھروں پر کیا اثر ہوگا، اس سے یہ ٹی وی چینلز بے پروا ہیں، صرف اپنے ریٹنگ بڑھانے کے چکروں میں پڑے ہوئے ہیں۔ فحاشی کو چھوتے ہوئے بولڈ مناظر دکھائے جا رہے ہیں۔ اس سے ہمارا معاشرتی اور گھریلو نظام بگڑنے لگا ہے۔ میڈیا سب سے زیادہ لڑکے اور لڑکیوں پر اثر انداز ہوتا ہے اور بھی خیالی دنیا میں کھو کر کاموں پر راغب ہو رہے ہیں۔ حرص اور ہوس کا پردہ ان کی آنکھوں پر پڑ رہا ہے۔ وہ ان ڈراموں کو حقیقت سمجھ کر وہی حماقت کر رہے ہیں جو دیکھتے ہیں جس کی وجہ سے گھر گھر پریشانیاں بڑھ رہی ہیں مگر اس کو کنٹرول کرنا گھر والوں کے بس میں نہیں رہا۔ اگر ہم نے اپنا سماجی نظام بچانا ہے تو ایسے ڈراموں پر چیک اینڈ بیلنس کرنا ہوگا ورنہ میاں بیوی میں مار کٹائی کا درس تو پہلے ہی یہ ڈرامے دے چکے ہیں۔ 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن