ناجائز ریاست اسرائیل کی دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے اور اس کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں غزہ سے آگے بڑھ کر پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں۔ لبنان پر غاصب اسرائیلی فوج کے دہشت گرد حملے کے بعد حزب اللہ نے سربراہ حسن نصر اللہ کو شہید کرنے کی تصدیق کر دی ہے۔ غاصب اسرائیلی فوج نے بیروت میں حزب اللہ کے مرکزی ہیڈکوارٹر پر دہشت گرد حملہ کیا جس کا بنیادی مقصد سید حسن نصر اللہ کو نشانہ بنانا تھا۔ غاصب اسرائیلی فوج کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ اور ان کی بیٹی زینب نصراللہ حملے میں شہید ہوگئے ہیں۔ اب حزب اللہ نے اس دعوے کی باقاعدہ تصدیق کردی ہے۔ غاصب اسرائیلی فوج نے حزب اللہ کے میزائل یونٹ کے سربراہ محمد علی اسماعیل اور نائب حسین احمد اسماعیل کو بھی شہید کرنے کا دعو یٰ کیا ہے۔ حملے میں ایرانی پاسداران انقلاب گارڈز کے ڈپٹی کمانڈر عباس نلفروشن بھی شہید ہوگئے۔
ادھر، نعیم قاسم نئے سربراہ کے انتخاب تک حزب اللہ کے معاملات سنبھال لیں گے۔ نعیم قاسم حزب اللہ شوریٰ کمیٹی کے مسلسل 3مرتبہ رکن رہ چکے ہیں۔ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ حسن نصراللہ کے خالہ زاد بھائی اور داماد ہاشم صفی الدین کو حزب اللہ کا نیا سربراہ بنایا جائے گا۔ ہاشم صفی الدین ایگزیکٹو کونسل کے سربراہ کے طور پر حزب اللہ کے سیاسی امور کی نگرانی کرتے ہیں اور وہ حزب اللہ کی جہاد کونسل کا بھی حصہ ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ نے ہاشم صفی الدین کو 2017ء میں دہشت گرد قرار دیا تھا۔
حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو بھی محفوظ مقام پر منتقل کردیا گیا، سکیورٹی مزید سخت کردی گئی ہے جبکہ اپنے بیان میں انھوں نے تمام مسلمانوں کو حزب اللہ اور لبنان کے عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کی اپیل کردی۔ آیت اللہ خامنہ ای نے بیان میں کہا کہ لبنان میں غیرمسلح شہریوں کی شہادت سے صہیونی حکومت کی وحشیانہ فطرت آشکار ہوگئی ہے۔ دہشت گرد گینگ حکمران صہیونی رہنماؤں نے غزہ میں ایک سال کی جنگ سے سبق نہیں سیکھا اور ان کو سمجھ نہیں آتی کہ خواتین، بچوں اور شہریوں کے قتل عام سے ان کی مزاحمتی طاقت کم نہیں ہوسکتی یا انھیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کرسکے۔ اب وہ لبنان میں وہی پالیسی آزما رہے ہیں۔ خطے میں تمام مزاحمتی طاقتیں حزب اللہ کے ساتھ کھڑی ہیں اور مکمل تعاون کر رہی ہیں۔ خامنہ ای نے مزید کہا کہ لبنانی یہ بات بھی نہیں بھولے کہ ایک وقت تھا جب قابض حکومت کے فوجی بیروت کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے اور حزب اللہ ان کو روکتی تھی۔ آج اللہ کے فضل سے لبنان پھر دشمنوں کو ان کی جارحیت اور کھوکھلے پن کے اقدامات پر شرمسار کر دے گا۔
دوسری طرف، امریکا نے ناجائز ریاست اسرائیل کے دفاع کا اعلان کرتے ہوئے ایک بار پھر واضح کردیا ہے کہ اسرائیل کی دہشت گردی کو امریکا کی مکمل تائید و حمایت حاصل ہے۔ امریکی صدرجوبائیڈن نے مشرق وسطیٰ میں فورسز کو الرٹ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ پینٹاگون اسرائیلی حمایت کے لیے موجود افواج کی جنگی تیاریوں کو یقینی بنائے۔ پینٹاگون کو40 ہزار سے زائد امریکی فوجیوں کو الرٹ رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن اور پینٹاگون نے بھی مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور امریکی فورسز کا دفاع یقینی بنانے کا اعلان کر تے ہوئے کہا ہے کہ ایرا ن اور یمنی حوثیوں کے لیے یہ واضح پیغام ہے کہ امریکی عسکری اثاثوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تو نتائج سنگین ہوں گے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ حسن نصراللہ کی کا اختتام منصفانہ اقدام ہے۔
امریکی صدر کے بیان سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ امریکا ایک بار مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کے شعلے بھڑکا رہا ہے۔ اسرائیل کو غزہ، لبنان اور مشرقِ وسطیٰ کے دیگر علاقوں میں دہشت گردی کے اسلحہ اور گولا بارود مہیا کر کے امریکا، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک صاف طور پر یہ اعلان کررہے ہیں کہ وہ کسی قاعدے ضابطے کو نہیں مانتے اور وہ دنیا میں امن کے قیام کے بھی خلاف ہیں۔ عالمی عدالتِ انصاف میں جہاں اسرائیل کے خلاف کارروائی کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں وہیں امریکا اور اس کے ان حواریوں کے خلاف بھی کارروائی کی بات ہونی چاہیے جو اسرائیل کو دہشت گردی کے ساز و سامان فراہم کررہے ہیں۔
اس پوری صورتحال میں سب سے افسوس ناک اور قابلِ مذمت کردار مسلم ممالک کے ان رہنماؤں کا ہے جو مذمتی بیانات سے آگے بڑھ کر کوئی ٹھوس اور عملی اقدامات نہیں کررہے ہیں۔ حالات و واقعات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ جب تک مسلم ممالک اسرائیل اور اس کی پشت پناہی کرنے والے ممالک کے خلاف ٹھوس کارروائی نہیں کریں گے تب تک اسرائیلی دہشت گردی کا راستہ نہیں روکا جاسکتا۔ امریکا اور اس کے حواری چاہتے ہیں کہ دہشت گرد اسرائیل کے ذریعے پورے مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کا دائرہ پھیلایا جائے۔ اسماعیل ہنیہ اور حسن نصراللہ کو شہید کر کے یہ عندیہ دیا گیا ہے کہ امریکا اور اس کے حواری خطے کو پر امن اور مستحکم نہیں ہونے دینا چاہتے۔ اب بھی اگر مسلم ممالک کے حکمران محض بیانات ہی جاری کرتے رہے تو پھر وہ وقت دور نہیں جب ایک ایک کر کے یہ سب امریکا کی پھیلائی ہوئی دہشت گردی کا نشانہ بنیں گے۔