لاہور (کامرس رپورٹر + نوائے وقت رپورٹ) وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کیلئے گرین انرجی کو فروغ دینا ہو گا۔ ملکی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے، حکومت توانائی کے شعبے کی ترقی پر کام کررہی ہے، سی پیک کے تحت توانائی کے منصوبے شروع کیے۔ ہم چاہتے ہیں سب کو سستی اور ماحول دوست توانائی حاصل ہو، توانائی کی کمی پوری کرنے کیلئے مختلف منصوبوں پر کام جاری ہے، متبادل توانائی کے منصوبوں پر بھی کام ہو رہا ہے۔ تاجکستان کے ساتھ کاسا منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں احسن اقبال نے کہا ہے کہ ورلڈ اکنامک فورم میں دنیا کو سب سے بڑا رسک مس انفارمیشن قرار دیا گیا ہے کیونکہ لوگوں کو گمراہ کرنے کا کام دنیا میں سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ لاہور میں جامعہ الرشید میں گفتگو کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ ہمارا دین وہ دین ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی تاریخ میں علم کے دور کا آغاز کیا۔ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرمﷺ کو علم کا معجزہ عطا کیا۔ آج بدنصیبی دیکھیے جس امت کی کتاب قرآن مجید کا آغاز اقراء سے کیا گیا وہ اس سے بہت دور ہوگئی ہے۔ آج ہماری زبوں حالی یہ ہے کہ ایک کروڑ کی آبادی نے دو ارب مسلمانوں کو مفلوج کیا ہوا ہے۔ معصوم بچوں کو شہید کیا جا رہا ہے، ہم خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ ہم علم اور عمل سے فارغ ہیں، نہ ہمارے پاس علم کی قیادت ہے اور نہ عمل کی قیادت ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بناکر پیش کیا جا رہا ہے۔ رشتوں کی حرمت ختم ہوجائے گی تو ریاست کمزور ہوگی۔ ایک مبلغ کو نفرت اور تعصب سے بچنا چاہیے۔ اگر لوگوں کو نفرت اور تعصب کی نگاہ سے دیکھیں گے تو نبی پاکﷺ کی تعلیمات پر نہیں چل سکتے۔ نفرت اور تعصب کا زہر ہمارے ذہنوں میں سوشل میڈیا کے ذریعے گھولا جاتا ہے، ضرورت ہے اس کو روکا جائے۔ علاوہ ازیں احسن اقبال نے کہا ہے کی کہ پاکستان میں ہوا اور شمسی توانائی سے 30,000 میگاواٹ قابل تجدید توانائی پیدا کرنے کی بڑی صلاحیت ہے۔ لیکن ہمیں اس صلاحیت کو حقیقت میں بدلنے کے لیے نجی اور عوامی مالیات کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) میں منعقدہ ایشیا انرجی ٹرانزیشن سمٹ 2024 کے دوسرے دن کے آغاز پر گفتگو کر رہے تھے۔ یہ دو روزہ تقریب LUMS نے پاکستان رینیوایبل انرجی کوایلیشن (PREC)، جو تحقیقاتی اداروں، سول سوسائٹی تنظیموں اور منصفانہ توانائی کی منتقلی کے کارکنوں کا ایک مجموعہ ہے، کے تعاون سے منعقد کی۔ سینیٹر شیری رحمان نے بھی موسمیاتی تبدیلی اور توانائی کی منتقلی کے دوگنے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مالیات کو متحرک کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے 2022-23 میں وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی کے طور پر کام کرنے کے دوران اپنے تجربات کا ذکر کیا اور پاکستان کو بین الاقوامی مالیات کو متحرک کرنے میں درپیش مواقع اور رکاوٹوں پر روشنی ڈالی۔ ایک اور سیشن کے دوران، پارلیمانی فورم برائے توانائی اور معیشت کے شریک کنوینر شیر علی ارباب نے وضاحت کی کہ پاکستان کی توانائی کی پالیسی اب بھی اسلام آباد میں بہت زیادہ مرکوز ہے، حالانکہ یہ شعبہ 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو منتقل کیا جا چکا ہے۔ دیگر افراد جنہوں نے توانائی کی منتقلی اور اس کے لیے درکار مالیات کے مختلف پہلوؤں پر بات کی، ان میں ڈاکٹر فیاض چوہدری، نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (NTDC) کے بورڈ کے چیئرمین، شاہجہان مرزا، پرائیویٹ پاور اینڈ انفراسٹرکچر بورڈ (PPIB) کے سربراہ، توانائی کے ماہر حنیہ اسعاد، سید مصطفی حیدر جو پاک-چائنا انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ ہیں، اور کئی دیگر پاکستانی و غیر ملکی ماہرین اور محققین شامل تھے۔